چاول کی تجارت کے نئے دروازے کھل گئے، مگر بڑھتے ٹیکس کتنا نقصاندہ؟

بدھ 31 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

 بھارت کی جانب سے اپنے چاول کی برآمدات پر پابندی عائد کرنے کے بعد دنیا بھر میں پاکستانی چاول کی مانگ میں اضافہ ہوگیا ہے اور 4 ارب ڈالر کا چاول برآمد کیا جاچکا ہے، اس طرح پاکستان کے لیے تجارت کے نئے دروازے بھی کھل گئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان دنیا کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے تیار ہے یا پھر ٹیکسز کی بھرمار میں کاشت کار اور تاجر اپنے اہداف حاصل کرسکے گا؟

اس رپورٹ میں کراچی کے ایک تاجر حکومت کو مستقبل کے چیلنجز سے آگاہ کرنے اور کاشت کاروں، تاجروں کی مشکلات سے بھی آگاہ کررہے ہیں۔

کراچی ہول سیل گروسریز کے چئیرمین عبدالرؤف ابراہیم نے وی نیوز کو بتایا کہ اس وقت ہمارے چاول کی ریکارڈ ایکسپورٹ ہوئی جو جاری رہے گی۔ اور یہ خوش آئند امر ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے چاول کی برآمدات پر پابندی عائد  کردی گئی ہے جس کی وجہ سے ہمارے چاول کی ڈیمانڈ بڑھی ہے اور اس کا سہرا ایکسپورٹرز کے سر بھی جاتا ہے۔ ہمارے چاول کی بعض اقسام  کی ہمارے ہاں بڑی فصلیں ہیں اور خوش قسمتی سے اس کی کوالٹی بھارت کے چاول سے اچھی ہے۔

کیا پاکستانی چاول دنیا کی ضرورت پوری کر پائے گا؟

عبدالرؤف ابراہیم کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں جو چاول کھایا جاتا ہے وہ وافر مقدار میں موجود ہے۔ اس بار چاول کی بمپر فصل ہوئی ہے، اس لیے ہم بین الاقوامی مارکیٹ کی ضروریات کو پورا کرسکتے ہیں، تاہم یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم نے چار ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کی لیکن ہمیں انڈسٹری کا درجہ نہیں دیا گیا۔ اوپر سے ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔کیش پر کام کرنے والوں سے منافع کمایا جائے تو کیا بنے گا؟ کیا انہیں ریلیف نہیں دینا چاہیے؟  ان کا کہنا ہے کہ پہلے تین فیصد ٹیکس پر کام ہوتا تھا جس سے ہمارا والیوم بڑھا لیکن اب کام کرنا ہے بینک کے ذریعہ اور وہاں دینا ہے 20 فیصد تو کیا حال ہوگا ہمارا؟

ایکسپورٹ پر کسی کا دھیان نہیں ہے

عبدالرؤف ابراہیم کہتے ہیں کہ ایکسپورٹ پر کسی کی توجہ ہی نہیں۔ ہمارے پاس چند چیزیں ہیں، ان میں گندم اور چاول سرفہرست ہے۔ اس پر ود ہولڈنگ ٹیکس اگر لگا دیا جائے تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ آگے جا کر انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں معاملات چلانا یہ سب مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت چھوٹے بڑے سب تاجر پریشان ہیں۔

فیکٹریوں کے لیے فکس الیکٹرک سٹی چارجز ایک دیمک ہے

عبدالرؤف ابراہیم کے مطابق فیکٹریوں پر فکس الیکٹرک چارجز لگا دیے گئے ہیں، مثلاً 500 کلو واٹ پر لگا دیے ہیں 8 لاکھ روپے اور 1200 کلو واٹ پر 18 لاکھ روپے، 93 روپے فی یونٹ پر  کون کام کر سکے گا اور کون سی رائس انڈسٹری چلے گی؟ آپ فیکٹری چلائیں نہ چلائیں آپ کو 18 لاکھ بھرنے ہیں۔ حکومت وقت کو صرف اتنا کہوں گا کہ جو فیکٹری چلے اس سے آپ چارجز وصول کریں نہ کہ سب سے۔

مجبور کیا جا رہا ہے کہ تاجر دبئی سے کاروبار کرے جس کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا

ان کا مزید کہنا تھا کہ جو چاول دنیا بھر میں پاکستان سے جا رہا ہے وہی چاول تاجر دبئی سے بھیجے گا کیوں کہ یہاں ٹیکسز کی بھرمار ہے اور دبئی کے تاجر پر ٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔ یہ سب ان کو پتہ ہے تو  یہاں کے تاجر کو کیوں تنگ کیا جا رہا ہے؟ ہم چاہتے ہیں پاکستان کا بھلا ہو ریمیٹنسز پاکستان آئیں، جب تاجر کمپنیاں باہر کھول دیں گے وہی سے تجارت کریں گے تو پھر پاکستان کو ریونیو کہاں سے ملے گا؟

چاول کی ایکسپورٹ سے کاشت کار کو کیا فائدہ ملا؟

ہول سیل گروسریز کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ ٹیکسز کی بھرمار سے ریلیف کسی کو نہیں ملے گا۔ سادہ سی مثال ہے کہ سرکار نے گندم کی قیمت مقرر کی 100 روپے کلو، وہ خریدی گئی 72 روپے کلو تو آپ بتائیں کیا لوگ گندم اگائیں گے؟ جو روز مرہ کی اشیاء ہیں چاول، گندم، دالیں اور تیل ان پر آپ ٹیکس لگا دیں تو کون کام کرے گا؟

کیا غریب آدمی دال روٹی بھی نہ کھائے؟

عبدالرؤف ابراہیم کا کہنا ہے کہ آپ نے بنیادی اشیاء پر ٹیکس لگا کر عام آدمی اور تاجر سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ بجلی کے بل دیں، روٹی کھائیں یا ٹیکس بھریں؟ عام تنخواہ دار طبقے کی کتنی تنخواہ ہے، چلیں سرکاری ملازمین کی آپ نے بڑھا دی باقی کیا کریں گے؟ اشرافیہ کا مسئلہ نہیں، ان کو مراعات مل چکی ہیں، ویگو ڈالے ہوتے ہیں کئی گارڈز ہوتے ہیں۔

ہمارے ہاں 75 برس میں کوئی میکینزم ہی نہیں بنا کہ پتہ چل سکے، اس بار کتنی فصل آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غریبوں کو ریلیف دیں اور تاجر برادری کو تنگ نہ کریں۔ اگر آپ نے انکم پر ٹیکس لینا ہے تو جب انکم ہی نہیں ہوگی تو انکم ٹیکس کہاں سے لیں گے؟ تاجر برادری کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ کاروبار بند کردیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان چیزوں کو نہ دیکھا گیا تو ہم ہڑتال کرنے جا رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp