یوں تو فاسٹ فوڈ کلچر نے دنیا کے ہر خطے کے روایتی کھانوں کو متاثر کیا ہے۔ لیکن نئے ذائقوں کے علاوہ مہنگائی، غذائی عدم تحفظ، اور انسان کی ازلی سہل پسند طبیعت بھی روایتی کھانوں کی پزیرائی میں کمی کا باعث ہے۔
جنوبی وزیرستان کے روایتی کھانوں لڑمون، خڑہ غوشہ، غوڑی زیمنہ، اور ویشلئے کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ یہ کھانے نہ صرف ذائقے میں منفرد ہیں بلکہ صحت افزا بھی ہیں۔
یہاں کے قبائل ان روایتی کھانوں کا اہتمام خصوصی تقاریب یعنی شادی بیاہ، دور دراز کے مہمانوں کی آمد، یا علاقے میں جرگہ کے موقع پر کرتے ہیں۔ تاہم لڑمون، خڑہ غوشہ، غوڑی زیمنہ، اور ویشلئے جیسے کھانے جتنے لذیذ ہیں، اتنے ہی مہنگے بھی ہیں کیونکہ ان ڈشوں کی تیاری نفوس کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے کرنا پڑتی ہے۔
قبائل کے ہاں ان کے آباواجداد سے یہی روایت چلی آرہی ہے کہ جب کسی گھر میں 7 مہمان آ جائیں تو وہ ان کے لیے بکرا یا دنبہ ذبح کرتے ہیں جس سے لڑمون، خڑہ غوشہ، غوڑی زیمنہ، اور ویشلئے جیسے کھانے بنا کر مہمانوں کی تواضع کی جاتی ہے۔ لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ثقافتی تغیر کے باعث قبائل کو یہ روایت برقرار رکھنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
سارا گاؤں کھانے کی تیاری میں حصہ لیتا ہے
جنوبی وزیرستان کے کسی علاقے یا گاؤں میں جب کوئی تقریب ہو تو علاقے کے نوجوان، چھوٹے بڑے، بزرگ سب مل کر روایتی کھانوں کی تیاری میں حصہ لیتے ہیں جس میں جانور ذبح کرنا، گوشت کاٹنا، آگ جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کرنا وغیرہ جیسے کام شامل ہیں۔ مہمانوں کی آمد پر پورا علاقہ خوشی مناتا ہے اور ہر مقامی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اچھے سے اچھے کھانے بنائے جائیں جنہیں مہمان رغبت سے کھائیں اور خوش ہوں۔
ان کھانوں میں کوئی مصالحہ استعمال نہیں ہوتا
سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ یہ لذیذ کھانے بغیر مصالحوں کے بہت ہی سادہ طریقے سے بنتے ہیں۔ لیکن ان کی تیاری کے لیے پورا جانور ذبح کرنا پڑتا ہے کیونکہ جانور کے ہر حصے کا گوشت بشمول چربی ان کھانوں میں ڈالی جاتی ہے۔
لڑمون بنانے کے لیے بکرے، دنبے، بیل یا گائے کو ذبح کرنے کے بعد جانور کی پسلیاں، کلیجی، جگر، گردے، اور دنبے کی لاٹ کی چربی مخصوص طریقے کے ساتھ ملائی جاتی ہے۔
خڑہ غوشہ بنانے کے لیے گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے کاٹ کر ایک بڑی دیگ میں پکائے جاتے ہیں۔ اس ڈش میں گوشت کے علاوہ صرف پانی اور نمک ڈالا جاتا ہے اور مخصوص وقت کے بعد گوشت تیار ہوجاتا ہے۔
ذیمنہ غوڑی اسی گوشت کا شوربہ ہوتا ہے۔ اس میں دنبے کی لاٹ کی چربی کا گھی نکال کر شوربے میں ڈالا جاتا ہے اور نرم روٹی (ویشلئے) کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔
یہ سارے روایتی کھانے تیار کرنے کے لیے ایک دن پہلے کام شروع ہوجاتا ہے۔ جب تمام کھانے تیار ہو جاتے ہیں تو دسترخوان بچھا کر مہمانوں کو پیش کیے جاتے ہیں۔
یہاں یہ کھانے ہر عمر کے لوگ بڑے شوق سے کھاتے ہیں حتیٰ کے بیمار بھی ان کھانوں سے پرہیز نہیں کرتے کیونکہ قبائل کا ماننا ہے کہ یہ کھانے نہ صرف صحت بخش ہوتے ہیں بلکہ بیماری سے لڑنے کی طاقت بھی مہیا کرتے ہیں۔