اسماعیل ہنیہ تہران میں موجود تھے جہاں ایک حملے میں ان کی شہادت ہوئی۔ وہ نومنتخب ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ ہنیہ حماس کے پولٹ بیورو کے سربراہ تھے ۔ 2017 میں ہنیہ کو خالد مشعل کی جگہ حماس کے سیاسی شعبے کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔
ہنیہ 29 جنوری 1963 کو غزہ کے الشتی کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والدین کو 1948 کی عرب اسرائیل جنگ کی وجہ سے اپنا گھر چھوڑنا پڑا تھا۔ 1997 میں ہنیہ کو حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کا معاون مقرر کیا گیا تھا۔ 2006 میں فلسطین کے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے، انہیں بعد میں برطرف کر دیا گیا تھا۔
ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے ہنیہ کی شہادت پر ردعمل دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اسلامی جمہوریہ ایران اپنی ارضی سالمیت، قومی اقتدار اعلیٰ ، عزت اور اپنے اعتبار کی پاسداری میں کوتاہی نہیں کرے گا اور صیہونی حکومت اپنی بزدلانہ دہشت گردی کے نتائج بہت جلد دیکھے گی۔‘ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ ہنیہ کی موت کا بدلہ لینا ایران پر فرض ہے۔
سنگاپور میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ اسرائیل نے امریکا کو ہنیہ کے مارے جانے کا پہلے سے نہیں بتایا تھا۔ امریکی اور عرب سفارتکار کئی مہینوں سے غزہ میں سیز فائر کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن اس حوالے سے ایک منصوبہ بھی پیش کر چکے ہیں۔ الیکشن سے دستبردار ہونے کے بعد بائیڈن اب ووٹر کے پریشر سے آزاد ہیں۔ وہ اپنے منصوبے پر عمل درامد کے لیے یکسو بھی ہوں گے اور ان کے پاس وقت بھی ہے۔
ایران نے نومنتخب صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کو اپنی طاقت کے اظہار کا موقع بھی جانا تھا۔ حماس، فلسطینی اسلامی جہاد، یمن کے حوثی اور لبنان کے حزب اللہ راہنما حلف برداری کے لیے تہران میں موجود تھے۔ ہنیہ کے علاوہ بیروت میں بھی ایک حملہ ہوا۔ بیروت حملے میں حزب اللہ کے اہم ملٹری کمانڈر فواد شکر کو بھی ٹارگٹ کیا گیا۔ اسرائیل نے ان کو مارنے کا دعویٰ کیا ہے تاہم حزب اللہ نے اس کی تصدیق نہیں کی۔
اکتوبر میں جب حماس نے اسرائیل پر راکٹ برسائے اور غزہ جنگ کا آغاز ہوا، تب اسماعیل ہنیہ ایک ویڈیو میں اس حملے کی خبروں پر خوش دکھائی دیے۔ بعد میں رپورٹ ہوا کہ اسماعیل ہنیہ کو بھی ان حملوں سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ حماس کے اندر غزہ کے اندر موجود راہنماؤں اور سیاسی لیڈر شپ میں اختلافات موجود تھے۔
ان اختلافات کی وجوہات سمجھ آنے والی ہیں۔ ہنیہ پر یہ تنقید کی جاتی تھی کہ وہ سیاسی سفارتی پیشرفت کرتے ہوئے فلسطین کے اندر موجود زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں۔ حماس کے لیڈر یحییٰ سنوار غزہ کے اندر موجود ہیں۔ سنوار اور ہنیہ میں ملٹری اور سفارتی سٹریٹجی پر اختلافات تھے۔ سنوار نے جنگ کو لمبا پھیلایا، اس کا انہیں فائدہ ہوا۔ جنگ طویل ہوئی، سول آبادی کی مشکلات بڑھیں۔
شہری آبادی بچوں عورتوں کی ہلاکتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اس کی وجہ سے اسرائیل پر شدید تنقید ہونا شروع ہوئی۔ یورپی ملکوں نے بھی فلسطین کو تسلیم کرنا شروع کر دیا۔ خود اسرائیل وزیر اعظم کے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ سے وارنٹ جاری ہو گئے۔ اب کچھ ہفتوں سے صورتحال تبدیل ہو رہی تھی۔ سنوار پر بھی خود فلسطینی حلقوں کی طرف سے تنقید شروع ہو چکی تھی۔ وجہ شہری آبادی کی بڑھتی ہوئی مشکلات اور جانی نقصان ہی بنا۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت، بیروت میں حزب اللہ کے ملٹری کمانڈر پر حملے سے جنگ کی شکل تبدیل ہو سکتی ہے۔ ایرانی سپریم لیڈر نے اس شہادت کا بدلہ لینے کو بھی فرض قرار دے دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے بیان سے صاف لگ رہا ہے کہ امریکی اس کارروائی سے فاصلہ اختیار کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود ایران نے کوئی جوابی فوجی کاروائی کی تو امریکی اس کو روکنے کے لیے اسرائیل کی تکنیکی اور عملی معاونت کریں گے۔ اسرائیل کو امریکا کی ڈیفنس شیلڈ میسر ہے۔
اس کارروائی کا ایک اور رخ بھی ہے۔ اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے اس وقت بہت سخت عالمی دباؤ ہے۔ اسرائیل کو کسی معاہدے سے پہلے یہ تاثر لازمی دینا ہے کہ وہ جنگ جیت چکا ہے۔ اکتوبر حملوں کے ماسٹر مائنڈ محمد ضیف کو ایک حملے میں مارنے کا دعویٰ اسرائیل پہلے ہی کر رہا ہے۔ یہ حملہ سیف زون قرار دیے گئے غزہ کے علاقے میں کیا گیا تھا۔ جس میں 71 لوگ مارے گئے تھے۔
اسرائیلی وزارت دفاع اپنی پارلیمنٹ کو بتا چکی ہے کہ حماس کے ملٹری ونگ 25 فارمیشن پر مشتمل تھا۔ فارمیشن کے 65 فیصد اہلکار حملوں کا نشانہ بنائے جا چکے ہیں۔ ملٹری ونگ اپنی حملوں کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ یہ اسرائیلی بیانات اور کارروائیاں جنگ بندی سے پہلے اپنی کامیابی دکھانے اور بتانے کے لیے ہیں۔ ہنیہ کی شہادت پر اب ایرانی جواب اور اس کے نتائج بتائیں گے کہ مشرق وسطیٰ پر جنگ کے سائے پھیل گئے ہیں، یا امن کو موقع مل جائے گا۔