قائد اعظم کے بعد جس سیاسی شخصیت کو پاکستان میں سب سے زیادہ عزت اور احترام حاصل ہوا، وہ محترمہ فاطمہ جناح ہیں۔ قائد اعظم اور فاطمہ جناح کے افکار سرکار و دربار میں بہت سے لوگوں کی آنکھوں میں کھٹکتے تھے۔ ان کی دیدہ دلیری اس درجے کو پہنچی ہوئی تھی کہ وہ ان شخصیات کے اقوال سنسر کرنے سے بھی باز نہ آئے۔
سب سے پہلے 11 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی میں قائد اعظم کی تاریخی تقریر سنسر کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ کوشش اگرچہ ناکام ہوئی لیکن ان عناصر نے ہمت نہیں ہاری اور محترمہ فاطمہ جناح کے خیالات کو سنسر کرنے کے لیے اپنا ہنر آزماتے رہے جس کی ایک سے زیادہ مثالیں موجود ہیں۔
ریڈیو پاکستان پر محترمہ فاطمہ جناح کی تقریر سنسر کی گئی۔ بانی پاکستان پر ان کی کتاب ‘ میرا بھائی ‘ پر سنسر کا آرا چلا۔ ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن کی مہم میں ان کے مقابل امیدوار کی حیثیت سے فاطمہ جناح کو سنسر شپ کا تلخ تجربہ ہوا۔
سنسر شپ کی ظالمانہ رسم کس طرح اس ملک میں پروان چڑھی؟ اسے ان واقعات کے بارے میں جانے بغیر سمجھا نہیں جاسکتا۔
سب سے پہلے ریڈیو پر تقریر کے معاملے پر بات کر لیتے ہیں ۔یہ 1951 کا قصہ ہے۔ قائد اعظم کی تیسری برسی پر ان کی بہن فاطمہ جناح کو ریڈیو پر تقریر کرنا تھی جس کے متن میں لیاقت علی خان کی حکومت پر تنقید بھی شامل تھی۔
ریڈیو پاکستان کے عالی دماغ کنٹرولر زیڈ اے بخاری کے لیے یہ بات قابلِ قبول نہیں تھی۔ لیکن مادر ملت نے اپنی تقریر بلا کم و کاست ریکارڈ کروائی۔آن ایئر ہونے پر وہ حصے جن سے زیڈ اے بخاری کو تکلیف تھی ان کی نشریات میں خلل پیدا کیا گیا۔ یہ بات معلوم ہونے پر فاطمہ جناح نے سخت ناراضی ظاہر کی۔ عوام بھی اس پر خاصے نالاں ہوئے۔
زیڈ اے بخاری نے فنی خرابی کی جھوٹی کہانی گھڑی جس پر کسی نے یقین نہیں کیا کیونکہ ٹرانسمیشن میں گڑ بڑ انہی حصوں کے دوران ہوئی تھی جن پر زیڈ اے بخاری معترض تھے۔ دراصل یہ ساری کارروائی شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کے لیے ڈالی گئی تھی۔
اس واقعے کے بعد زیڈ اے بخاری وزیراعظم لیاقت علی خان کے حضور پیش ہوئے۔براڈ کاسٹر اور شاعر حمید نسیم ان کے ہمراہ تھے جنہوں نے اس ملاقات کا احوال اپنی کتاب ‘ ناممکن کی جستجو ‘ میں کچھ یوں رقم کیا ہے:
‘وزیراعظم نے فرمایا۔بخاری! یہ مس جناح کی تقریر کا کیا قصہ ہے۔ بخاری صاحب نے عرض کیا۔ جناب والا ! ٹرانسسٹر ٹرپ ہو گیا تھا۔ وزیر اعظم نے نہایت تحمل سے فرمایا ۔ میں اخبارات میں آپ کا وہ بیان دیکھ چکا ہوں، اصل بات کیا تھی؟ بخاری صاحب نے قابل اعتراض فقرے دہرائے اور بتایا کہ سیکرٹری اور وزیر دونوں پہلوتہی کر گئے۔ سو میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ ان فقروں کو نشر نہ ہونے دوں۔ یہ صرف میری ذمہ داری ہے اور میں ہر سزا کے لیے حاضر ہوں۔
وزیراعظم نے ایک لمحہ توقف کیا اور فرمایا: آپ کا فیصلہ بالکل درست تھا۔اچھا۔ خدا حافظ۔
وہ دونوں الٹے پاؤں کمرے سے باہر آگئے۔ باہر نکلے تو بخاری صاحب کی چال یوں تھی جیسے ہوا میں اڑ رہے ہوں۔ اتنے دنوں کا اضطراب وزیراعظم کے ایک فقرے سے مکمل طمانیت اور سکون میں بدل گیا تھا۔ ہر طرف شانتی ہی شانتی تھی۔’
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیڈ اے بخاری کو اپنے کیے پر کوئی پشیمانی نہیں تھی اور ان کی وضاحت سراسر جھوٹ پر مبنی تھی۔ فاطمہ جناح کی آواز دبانے کا مقصد وزیراعظم کی خوشنودی حاصل کرنا تھا۔
سنسر کی اس واردات کے سلسلے میں سب سے خوش آئند بات عوام کا وہ شدید ردعمل تھا جس کی وجہ سے حکومت کو پسپائی اختیار کرنی پڑی اور مادر ملت کی تقریر بغیر کاٹ چھانٹ کے ریڈیو پر دوبارہ نشر ہوئی جسے عوام نے بڑے شوق سے سنا۔ اس بارے میں معروف ترقی پسند دانشور عبداللہ ملک نے روزنامہ امروز میں اپنے کالم میں لکھا:
’13 دن کے مسلسل احتجاج کے بعد کل رات ساڑھے آٹھ بجے محترمہ فاطمہ جناح کی پوری تقریر کا ریکارڈ نشر کیا گیا۔ رات لاہور کے ہر چوراہے، پنواڑی کی دکان اور ہر ہوٹل میں جہاں ریڈیو سیٹ موجود تھا لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہوئے تھے۔ ہزاروں عقیدت مند خاموش کھڑے خاتونِ پاکستان کے ارشادات سنتے رہے۔’
ریڈیو پر فاطمہ جناح کے وہ جملے سنسر شپ کی لپیٹ میں آئے جن میں لیاقت حکومت پر تنقید تھی۔ سرکاری ادارے نے ‘ میرا بھائی ‘ میں سے وہ حصے نکال باہر کیے جن سے لیاقت علی خان کی شخصیت کا بڑا پن مجروح ہوتا تھا۔ ریڈیو پر جو کام زیڈ اے بخاری نے کیا کتاب کے ضمن میں اسے قائد اعظم اکادمی کے ڈائریکٹر شریف المجاہد نے انجام دیا۔
معروف لکھاری اختر بلوچ کے مضمون ‘قائد اعظم کی زندگی کے گمشدہ اوراق ‘ سے اس بارے میں شریف المجاہد کا مؤقف سامنے آتا ہے:
‘ہم نے جب شریف صاحب سے اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ چوں کہ یہ صفحات نظریہ پاکستان کے خلاف تھے اس لیے ہم نے کتاب سے حذف کر دیے اور ان کو اپنے اس عمل پر نہ تب کوئی افسوس تھا، اور نا ہی آج ہے!’
‘ میرا بھائی’ سے حذف شدہ مواد کے نظریہ پاکستان کے خلاف ہونے کا نادر نکتہ شریف المجاہد کا ذہن رسا ہی تراش سکتا تھا۔ اور وہ بھی کسی اور کے نہیں مادر ملت کے بیانات سے۔ خیر یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ آخر قائد اعظم کی تقریر(11 اگست) بھی تو اس بنیاد پر کہ اس سے دو قومی نظریے کی نفی ہوتی ہے سنسر کرنے کی کوشش ہوئی تھی۔
جن دو واقعات کو ‘ میرا بھائی ‘ کتاب سے نکال دیا گیا تھا انہیں بعد میں قدرت اللہ شہاب نے ’شہاب نامہ‘ میں شامل کر دیا۔
پہلا واقعہ 30 جولائی 1948 کا ہے جب لیاقت علی خان چودھری محمد علی کے ساتھ زیارت میں قائد اعظم کی خیریت دریافت کرنے آئے تھے۔ جب اس کی اطلاع قائد اعظم کو ملی تو انہوں نے اپنی بہن سے کہا:
‘تم جانتی ہو وہ کیوں آئے ہیں؟ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ میری علالت کتنی شدید ہے۔ میں کتنا عرصہ زندہ رہ سکتا ہوں۔’
کھانے کی میز پر فاطمہ جناح نے لیاقت علی خان کو بڑے خوشگوار موڈ میں دیکھا۔ ظاہر ہے کہ بیمار بھائی کی تیمار دار بہن کے لیے یہ رویہ باعثِ رنج تھا۔
معروف محقق ڈاکٹر عقیل عباس جعفری کے’ پاکستان کرونیکل’ میں بھی یہ حوالہ موجود ہے۔
شہاب نامہ میں شامل دوسرا واقعہ کچھ یوں ہے کہ غلام محمد نے فاطمہ جناح کو زیارت میں بتایا کہ یوم آزادی کے موقعے پر قائد اعظم کے بجائے لیاقت علی خان کے پیغام کی وسیع پیمانے پر تشہیر ہوئی ہے۔
ریڈیو پر تقریر کا معاملہ ہو یا کتاب میں فاطمہ جناح کے وزیراعظم کے بارے میں تاثرات ۔ان سے ظاہر ہوتا ہے وہ لیاقت علی خان کو ناپسند کرتی تھیں۔
صاحبِ اسلوب نثر نگار اور بیوروکریٹ مختار مسعود نے ‘آواز دوست’ میں فاطمہ جناح کے ساتھ افسر مہمانداری کے طور پر لائل پور سے لاہور تک سفر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا :
‘مس جناح نے راستے میں بہت سی باتیں کیں اور اکثر صاف اور کھری باتیں تھیں۔ مس جناح نے بتایا کہ قائد اعظم نے لیاقت علی خان کی سوجھ بوجھ پر لیاقت ڈیسائی پیکٹ کے بعد کبھی بھروسہ نہ کیا۔ اگر وقت اور واقعات کی رفتار اتنی تیز نہ ہوتی تو وہ ضرور کسی اور شخص کو ان کی جگہ دے دیتے۔ محترمہ نے یہ بھی کہا کہ ہیکٹر بولیتھو کو قائد اعظم کی سوانح عمری لکھنے کے لیے منتخب کیا گیا تاکہ وہ لیاقت علی خان کے کام کو بڑھا کر پیش کریں۔ جب ہیکٹر بولیتھو کی کتاب اس گفتگو کے چار سال بعد چھپ کر سامنے آئی تو میں نے اس کی ایک جلد خاص طور پر کراچی سے منگائی اور یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ مس فاطمہ جناح کے خدشات بالکل درست تھے۔’
ممتاز تاریخ دان کے کے عزیز کی کتاب ‘ تاریخ کا قتل’ میں بھی لیاقت ڈیسائی پیکٹ پر قائد اعظم کی سخت ناراضی کا تذکرہ ہے۔ لیاقت علی خان نے ڈیسائی سے کہا کہ جناح بیمار اور قریب مرگ ہیں اس لیے کانگریس مسلمانوں کے ساتھ مسائل کے دیرپا اور عملی حل کی خواہاں ہے تو وہ ان کے ساتھ ڈیل کرے۔ کے کے عزیز نے لکھا ہے کہ لیاقت ڈیسائی پیکٹ ایک ایسی خفیہ اور مشتبہ ڈیل تھی جس کے سلسلے میں قائد اعظم سے مشاورت ہوئی نہ ہی اس بارے میں انہیں بتایا گیا۔اخبارات میں مذکورہ پیکٹ کا متن پڑھ کر قائد اعظم کو بڑا دھچکا لگا تھا۔
اب ہم فاطمہ جناح اور سنسر شپ کی آخری کڑی پر بات کرتے ہیں۔
پاکستان میں آمریت کو للکارنے میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کا پلڑا بھاری رہا ہے۔ اس سلسلہ مزاحمت کی بنیاد گزار محترمہ فاطمہ جناح تھیں جنہوں نے ایوب آمریت کی چولیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ ان کے خلاف مذہبی کارڈ سے لے کر دشنام طرازی تک ہر حیلہ آزمایا گیا لیکن محترمہ کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی ۔
پریس کا رویہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم کے سلسلے میں غیر موافقانہ تھا جس کا اندازہ محترمہ کے ان دو بیانات سے کیا جاسکتا ہے:
‘ سرکاری کنٹرول میں کام کرنے والے اخبارات میری تقریروں پر غلط سرخیاں لگاتے ہیں۔’
’یہ خریدے ہوئے اخبارات ہماری تقریریں بھی توڑ مروڑ کر شائع کرتے ہیں۔’
اخبارات میں فاطمہ جناح کے جلسے پلے ڈاؤن کرنے کی کوشش بھی ہوتی رہی۔ ممتاز فوٹو گرافر ایف ای چودھری نے سینئر صحافی منیر احمد منیر کو بتایا:
‘دو ڈھائی بجے مس جناح نے موچی دروازے میں اپنی الیکشن مل کیمپئن کے سلسلے میں تقریر کرنا تھی، پبلک میٹنگ۔ خواجہ محمد آصف ایڈیٹر( پاکستان ٹائمز) تھے۔ انہوں نے مجھے بلایا: چودھری صاحب، مس جناح نے تقریر کرنی ہے موچی دروازے۔ میں نے کہا: ہاں میں جاؤں گا وہاں۔ کہنے لگے: ایسی فوٹو کھینچنا جس میں کراؤڈ تھوڑا نظر آئے۔ میں نے کہا: خواجہ صاحب ! آپ کو پتا ہے یہ اس شخص کی بہن ہے جس نے ملک بنایا۔ لوگ تو پاگلوں کی طرح جائیں گے ساری سڑکیں بھری ہوں گی۔ کہنے لگے کوشش کرو۔ میں نے کہا: کوشش نہیں ہوسکتی۔’
ایف ای چودھری نے ایڈیٹر کی بات ماننے سے انکار کردیا اور نوبت ان کے استعفے تک آن پہنچی جو قبول نہ ہوا اور ان سے کہا گیا کہ اچھا چلیں وہ اپنی مرضی کریں۔
ایف ای چودھری نے بتایا کہ ان کی تصویر دو یا تین کالم چھپی۔ اس پر بھی ایڈیٹر نے بتایا کہ اوپر سے فون آیا تھا کہ آپ نے اتنا بڑا کراؤڈ دکھایا جبکہ اخبار میں ایوب خان کی تصویر چار کالم، پانچ کالم اور چھ کالم شائع ہوتی تھی۔
نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ وہ کون سی ذہنیت ہے جو قائد اعظم اور فاطمہ جناح کے بیانات بھی کسی مفروضہ فکر کی کسوٹی پر پرکھنا چاہتی تھی اور وہ انہیں نظریہ پاکستان کے خلاف نظر آتے تھے۔ افسوس کی بات ہے اس سوچ نے بانی پاکستان اور مادر ملت کے بعد بھی دم نہیں توڑا۔ اس لیے کبھی تو قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر جلانے کی کوشش ہوتی رہی اور کبھی ان کی جعلی ڈائری بر آمد کرکے کسی خاص سیاسی نظام کو رائج کرنے کی وکالت کی گئی مگر ان حیلے بہانوں اور حربوں کے باوجود سچائی اپنا راستہ تلاش کرتی رہی۔