عدالت کی غیرجانبداری پر عدم اعتماد، ججوں کی کردار کشی اور حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی سیاسی عدم برداشت، ان سب چیزوں پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نہ صرف جذباتی ہوگئے بلکہ ایک موقعے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس اقبال حمید الرحمٰن کے استعفے کو یاد کرکے آبدیدہ بھی ہوگئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بھی انسان ہیں اور دل رکھتے ہیں، کبھی ایک تو کبھی دوسرے جج پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ ججوں کے بیوی بچوں پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ان کے خاندان پر کیا گزرتی ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اقبال حمید الرحمٰن ایک بہترین جج تھے اور ایک متنازعہ فیصلے کی وجہ سے انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے سابق چیف جسٹس اقبال حمیدالرحمٰن کو استعفیٰ دینے سے منع کیا تو انہوں نے ایک ہی بات کی کہ میں اپنے والد (جسٹس حمود الرحمٰن) کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب چیف جسٹس نے اپنے چشمے اتارے اور آنکھوں پر ہاتھ رکھا اور ان کی آواز بھرا گئی۔ لیکن پھر کہنے لگے کہ ‘مجھے جذباتی نہیں ہونا چاہیے تھا’۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس اطہرمن اللہ، جسٹس شاہد وحید، جسٹس منیب اختر سب کے سب آئین کو بہت اچھے طریقے سے جانتے، سمجھتے اور اس میں مہارت رکھتے ہیں لیکن آپ مجھ سے سوال کریں کہ میں نے بینچ میں جسٹس مظاہرعلی نقوی کو کیوں شامل نہیں کیا؟
پھر خود اس سوال کا جواب چیف جسٹس نے کچھ یوں دیا کہ ’یہ ایک خاموش اظہار تھا‘۔
چیف جسٹس نے قاضی فائز عیسٰی کا نام لیے بغیر کہا کہ 2 سال اس عدالت کو سزا دی گئی۔ 2 سال میرے ایک کولیگ نے بہت صدمہ برداشت کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت میری عدالت کو متنازعہ کہہ رہی ہے اور کسی کو پرواہ نہیں کہ اس سے ادارہ کس طرح متاثر ہو رہا ہے۔
آج کی سماعت میں چیف جسٹس دل سے بولے، اپنا غبار خاطر افشا کیا اور پھر کہا کہ ‘مجھے جذباتی نہیں ہونا چاہیے تھا’۔ انہوں نے دبے لفظوں میں میڈیا کے بارے میں شکایت بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے ججوں کے درمیان کوئی ایسا اختلاف نہیں جس طرح پیش کیا جاتا ہے، لیکن میڈیا میں بہت ساری باتیں ہوتی ہیں، جن میں سے کچھ ٹھیک ہوتی ہیں اور کچھ ٹھیک نہیں ہوتیں۔ میڈیا معاشرے کی آنکھ ہے اس لیے اسے نہیں روک سکتے۔
انہوں نے کہا کہ اس ملک میں سیاسی ہی نہیں تمام جگہوں پر درجہ حرارت کم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت صرف اس لیے کام کر رہی ہے کہ لوگوں کا اعتماد بحال رہے۔
چیف جسٹس نے ایک اور واقعے کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ میں شاید ان لوگوں میں سے آخری ہوں جنہیں عہدوں سے نکالا گیا اور ہمیں گھروں پر نظر بند کردیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس نے میرا زندگی کو دیکھنے کا نظریہ بدل دیا۔ ایک موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اللہ سے ڈرتے ہیں، ٹیکس والوں سے نہیں ڈرتے۔ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ ٹیکس والوں کو ہمارے پیچھے بھیجیں۔