رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ڈیڑھ کروڑ کی آبادی پر محیط ہے، یہاں بسنے والی اقوام کا ذریعہ معاش تجارت، زراعت اور غلہ بانی ہے، جبکہ ایک قلیل تعداد ملازمتوں کے ذریعے اپنا گزربسر کرتی ہے۔
بلوچستان کو 2 مختلف ممالک کی سرحدیں بھی لگتی ہیں جن میں افغانستان اور ایران شامل ہیں، سرحدی علاقوں میں بسنے والے لوگ دو طرفہ تجارت کے ذریعے اپنا گزر بسر کررہے ہیں۔
مہنگائی سے نہ صرف عام آدمی آدمی بلکہ کاروباری طبقے کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان
دوسری جانب وفاقی حکومت کی جانب سے آئے روز ٹیکسز میں اضافے نے مہنگائی کا جن بوتل سے باہر نکال دیا ہے، جس سے نہ صرف عام آدمی بلکہ کاروباری طبقے کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان ہورہا ہے، ایسے میں ہر مکتبہ فکر کا شہری پریشانی سے دوچار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افریقہ سے یورپ کے لیے ہجرت کے دوران ہر ہفتے 11 بچے مرتے ہیں، یونیسیف
اسی پریشانی کے سبب ملک بھر سے لوگ بڑے پیمانے پر دیگر ممالک کا رخ کررہے ہیں تو ایسے میں بلوچستان کے تاجر نئے مواقعوں کی تلاش میں دیگر ممالک کو ہجرت کررہے ہیں۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ایوان صنعت و تجارت کے سینیئر نائب صدر آغا گل نے بتایا کہ حکومت ہر گزرتے دن کے ساتھ نئے ٹیکسز عائد کررہی ہے جس سے نہ صرف عوام پر بوجھ پڑرہا ہے بلکہ کاروباری طبقے کا بھی کاروبار کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے تاجر بڑے پیمانے پر دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کررہے ہیں۔
حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث لوگ تاجر ہجرت پر مجبور
گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران اب تک ساڑھے 3 ہزار سے زائد تاجر دوسرے ممالک کو ہجرت کر چکے ہیں، ہجرت کرنے والے تاجروں میں ایسے تاجر بھی شامل ہیں جو سالانہ اربوں روپے کا ٹیکس حکومت کو ادا کر کے قومی خزانے کو فائدہ پہنچاتے تھے لیکن حکومت کی غلط پالیسیوں کی سبب یہ کاروباری حضرات حکومت سے ناامید ہو کر دوسرے ممالک میں اپنا کاروبار منتقل کرچکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جائیں تو کہاں جائیں، ایک طرف بھارتی مظالم اور دوسری طرف جدائی کا غم
آغا گل نے وی نیوز کو بتایا کہ زائد ٹیکسز کا بوجھ صرف بلوچستان پر ڈالا جارہا ہے۔ یہاں آنے والے افسران بلوچستان سے زائد ٹیکسز ریکوری کی صورت میں وصول کررہے ہیں جس کا براہ راست اثر تاجر پر پڑرہا ہے۔
ایسے میں تاجر کو اپنا خریدا ہوا سامان دگنی قیمت پر فروخت کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
حکومت کو ٹیکس دینے کا کوئی جواز نہیں
انہوں نے کہا کہ جب تک بلوچستان کے ساتھ ایسی ناانصافی ہوتی رہے گی تب تک آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ ’ہم دیگر ممالک سے ملنے والی امداد پر تو بہت خوش ہوتے ہیں لیکن جو تاجر حکومت کو کروڑوں روپے کا ٹیکس ادا کر کے قومی خزانے کو فائدہ پہنچاتا ہے، اسے حکومت سہولت دینے کو تیار نہیں۔‘
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں اربوں روپے کی مالی بےضابطگیاں سامنے آگئیں
ان کا کہنا ہے کہ بھاری مقدار میں ٹیکس دینے کے باوجود وہ کسی قسم کی سہولت کو استعمال نہیں کرسکتے، نہ تو صوبے میں بہتر علاج کی سہولیات ہیں اور نہ ہی تعلیم کی، ایسے میں حکومت کو ٹیکس دینے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
کنٹینرز پاس کروانے کے لیے لاکھوں روپے کی رشوت، تاجروں کے پاس ہجرت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں
آغا گل نے کہا کہ بلوچستان میں سرحدی تجارت سے ہزاروں لوگ منسلک ہیں، صوبے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں پر مکمل ٹیکسز ادا کرنے کے باوجود بھی قومی شاہراہوں اور سرحدوں پر اپنے کنٹینرز پاس کروانے کے لیے رشوت کی مد میں لاکھوں روپے ادا کرنے ہوتے ہیں۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ اگر ایک کنٹینر ایران سے ایک کروڑ روپے میں لایا جاتا ہے تو اس کو اسلام اباد تک لے جانے کا کرایہ 6 سے 7 لاکھ روپے بنتا ہے ایسے میں ایران کی سرحد کے بعد چیک پوسٹوں پر پیسے دیتے دیتے 7 سے 8 لاکھ روپے رشوت کی مد میں دینے پڑتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک کروڑ میں خریدا گیا کنٹینر ایک کروڑ 20 لاکھ میں پڑ جاتا ہے جس سے تاجر کو بھاری پیمانے پر نقصان پہنچتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر داخلہ بلوچستان کو کوئٹہ دھرنے میں نقاب پوشوں کی موجودگی پر تشویش، مذاکرات کے لیے کمیٹی قائم
’اس رشوت خوری کا پوچھنے والا کوئی نہیں، ایسے میں تاجر ہجرت نہ کریں تو کیا کریں اس کے علاوہ تاجروں کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔‘
تاجر ملک سے ہجرت کرتے رہے تو اس کا براہ راستہ سر قومی خزانے پر پڑے گا، ماہرین معیشت
ماہرین معیشت کا موقف ہے کہ بلوچستان میں سرحدی تجارت کا حجم 100 ارب روپے سے زائد ہے، ایسے میں حکومت کو دو طرفہ سرحدی تجارت سے ٹیکسز کی مد میں اربوں روپے کا فائدہ پہنچتا ہے اگر یہ تاجر وقتا فوقتا ملک سے ہجرت کرتے رہے تو اس کا براہ راستہ سر قومی خزانے پر پڑے گا۔
ایسی صورتحال میں حکومت کو زائد ٹیکسز سے پریشان تاجروں کے زخموں پر مرہم رکھنا ہوگا، تاکہ ڈوبتی ملکی معیشت کو سہارا مل سکے۔