پاکستان میں گزشتہ کچھ برس کے مقابلے میں خواتین میں سی سیکشن کا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ جہاں بہت سے افراد یہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹرز صرف پیسے کمانے کے لیے سی آپریشن بتا دیتے ہیں، وہیں اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ خواتین خود ڈاکٹرز کو کہہ کر آپریشن کرواتی ہیں۔ حتیٰ کہ یہ خواتین اچھی پڑھی لکھی بھی ہوتی ہیں۔ جو اس بات سے بخوبی واقف ہوتی ہیں کہ سی سیکشن ان کے لیے بعد میں صحت سے متعلق بہت سے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں گیلپ سروے کی جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق 2019 میں پاکستان میں 23.1 فیصد پیدائش سی سیکشن کے ذریعے ہوئی ہیں اور صوبائی سطح پر سب سے زیادہ تعداد پنجاب سے تعلق رکھنے والی خواتین کی ہے۔ جہاں ہر 3 میں سے 1 خاتون نے بچے کی پیدائش سی سیکشن کے ذریعے کروائی جو قومی اوسط سے 7.6 فیصد زیادہ تھی۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پاپولیشن سٹڈیز کے مطابق 43 فیصد امیر خواتین آپریشن کے ذریعے بچہ پیدا کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جو قومی اوسط سے 20 فیصد زیادہ اور کم دولت والے درجے میں آپریشن سے ہونے والی پیدائشوں سے نمایاں طور پر 35.1 فیصد زیادہ ہے۔
مزید پڑھیں:’کوئی بچہ کیلا کھاتے ہوئے پنجاب سے نکل گیا تو اس کے خلاف کیا کارروائی ہوگی‘؟
2019 میں وہ خواتین جو اعلیٰ تعلیم (45.8 فیصد) یافتہ تھیں، ان میں سے 22.7 فیصد خواتین نے سی سیکشن کو ترجیح دی۔ اور 20 سے 34 سال کے درمیانی عمر کی خواتین نے آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش کو چنا۔ مگر یہاں تشویش کی بات یہ ہے کہ سی سیکشن کے نقصانات سے آگاہ پڑھی لکھی خواتین بھی آپریشن کو کیوں ترجیح دیتی ہیں؟
شفا انٹرنیشنل اسپتال کی گائناکولوجسٹ ڈاکٹر شہناز کا کہنا تھا کہ سی سیکشن کو پڑھی لکھی اور امیر خواتین کیوں ترجیح دیتی ہیں اس کے حوالے سے کوئی تحقیق تو موجود نہیں، لیکن میرے خیال میں شاید چند وجوہات ہیں جس کی وجہ سے خواتین آپریشن کو ترجیح دیتی ہیں، جن میں سے ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ خواتین زیادہ بچوں کی خواہشمند نہیں ہوتی، دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ بچے اور خود کو قدرتی لیبر کے عمل کو برداشت کرنے سے بچانا چاہتی ہیں۔
مزید بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ آپریشن کا خرچ بھی بآسانی برداشت کرسکتی ہیں۔ تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ وجائنل ڈیلیوری کے مسائل سے آگاہ ہوتی ہیں شاید اس لیے ترجیح نہیں دیتیں۔ سی سیکشن خواتین کو اس لیے شاید بہتر لگتا ہے کہ انہیں اس میں درد نہیں برداشت کرنا پڑتی کیونکہ انہیں انڈر سپائنل انستھیزیا دیا جاتا ہے جو نقصان دہ نہیں ہوتا کیونکہ صرف آپریشن میں نہیں بلکہ نارمل ڈیلیوری میں بھی خواتین کو پین کلرز اور دیگر ادویات دی جاتی ہیں۔
مزید پڑھیں:دورانِ پرواز بچے کی پیدائش، پائلٹ دائی بن گیا
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب تو آپریشنز میں بھی اتنا ایڈوانس سسٹم ہو چکا ہے کہ زیادہ بلیڈنگ کے خدشات بھی کم ہو گئے ہیں۔ تو سی سیکشن کے نقصانات بھی ہیں لیکن شاید خواتین کو یہ طریقہ زیادہ محفوظ لگتا ہے اور خاص طور پر جو پہلے سے طے شدہ ڈیلیوری ہو وہ اس سے بھی زیادہ آسان ہوتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو آپریشن کے اپنے کچھ نقصانات ہوتے ہیں۔ جس میں بلیڈنگ کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ انفیکشن ہونے کا بہت زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ مگر آج کل اینٹی بائیٹکس کا استعمال بھی زیادہ ہوگیا ہے جو انفیکشن اور ان سب چیزوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ لیکن پھر بھی ایک قدرتی عمل کے مقابلے میں دیگر مسائل ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹانکے (اسٹیچز) تو عام ڈیلیوری میں بھی لگتے ہیں۔ اس کا درد بھی الگ ہوتا ہے، تو دونوں کے ہی اپنے اپنے مسائل ہیں۔ مگر نارمل ڈیلیوری میں ریکوری جلدی ہو جاتی ہے۔ اور آپ کو اگلی ڈیلیوریز کے دوران پیچیدگی مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ لیکن سی سیکشن کے بعد اگلی ڈیلیوری بعض اوقات بہت پیچیدہ بھی ہو جاتی ہے۔ جس میں کچھ بڑے مسائل یہاں تک کے آئی سی یو میں بھی جا سکتی ہے۔ اگر کسی اسپتال میں میڈیکل اور ٹیکنیکل وسائل کی کمی ہوتو اسی طرح کے مسائل ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر شہناز کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس جو بھی خواتین آتی ہیں اکثر نارمل ڈیلیوری کی خواہشمند ہوتی ہے، کچھ خواتین ضد بھی کرتی ہیں کہ انہیں آپریشن سے ہی بچے کو جنم دینا ہے۔ لیکن ہم خود ان کی کونسلنگ کرتی ہیں اور انہیں عام ڈیلیوری کے فوائد کے حوالے سے بتاتے ہیں۔ ان کو حوصلہ دیتے ہیں کہ اس میں بھی آپ کو پین کلرز دیے جائیں گے جس سے درد کم ہوگا۔
مزید پڑھیں:اسپتال پہنچنے کے باوجود بچے کی بس میں پیدائش، اصل معاملہ کیا رہا؟
عذرا عمر کا تعلق راولپنڈی سے ہے، انہوں نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا بیٹا ایک سال کا ہے جو سی سیکشن سے پیدا ہوا۔ کہتی ہیں کہ انہیں ہمیشہ سے نارمل ڈیلیوری سے بہت زیادہ ڈر لگتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ انہیں نے ڈاکٹر سے کہا تھا کہ آپریشن کو زیادہ بہتر محسوس کرتی ہیں کیونکہ وہ لیبر پین کو برداشت نہیں کر پائیں گی۔
عذرا نے مزید بتایا کہ ڈاکٹر نے مجھے منع نہیں کیا کہ مجھے آپریشن کی جانب نہیں جانا چاہیے لیکن آپریشن کے 1 سال بعد بھی آپریشن نے مجھے بہت تکلیف دی۔ میں زیادہ چل نہیں سکتی اور نہ ہی پاؤں کے بل بیٹھ کر کوئی کام کرسکتی ہوں بہت مشکل ہوگیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپریشن ہوا تو ان کے اسٹچز چند دن بعد کھل گئے تھے جس کے بعد انہیں دوبارہ سے اسٹچز لگے جن کی بہت زیادہ تکلیف تھی، کاش مجھے پہلے علم ہوتا تو کبھی آپریشن کا انتخاب نہ کرتی کیونکہ جتنی تکلیف برداشت کر چکی ہوں، اتنی تو میں عام ڈیلیوری میں بھی برداشت کرلیتی۔