اگر آپ سیاحت کے حوالے سے کبھی ایبٹ آباد آئے ہوں یا آنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو آپ کے پسندیدہ مقامات کی فہرست میں الیاسی مسجد یقیناً ضرور شامل ہوگی، اگر ایسا نہیں تو اسے لازمی شامل کرلیں کیونکہ اس کے بغیر آپ کا دورہ ایبٹ آباد کسی صورت کامیاب قرار نہیں پائے گا۔
الیاسی مسجد کی وجہ شہرت
میدان رش کے مشرقی کونے اور شہر کے قدیم علاقے دھمتوڑ کے نواح اور بعد ازاں آباد ہونے والے نئے شہر یعنی نواں شہر میں قائم اس مسجد سے کئی دلچسپ روایات جڑی ہوئی ہیں۔ اس مقام پر پانی کے سدا بہار چشمے ہمیشہ سب کی توجہ اور دلچسپی کا باعث رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں گلگت بلتستان کی 650 سال پرانی تاریخی مسجد
نواں شہر کے جدی پشتی رہائشی رفعت محمود کے مطابق انہوں نے اپنے ان بزرگوں سے سنا جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا تھا کہ قیام پاکستان سے بہت پہلے یہاں کی ہندو آبادی کی خواہش تھی کہ اس مقام پر ایک مندر تعمیر کیا جائے کیونکہ ان کی عبادت گاہیں ہمیشہ قدرتی پانی کے ذخیروں یا چشموں کے کنارے آباد کی جاتی تھیں۔
رفعت محمود کے مطابق نواں شہر اس وقت میدان رش کا سب سے متمول علاقہ تھا جہاں ہندو تاجر اور ساہوکاروں کی بڑی بڑی کوٹھیاں اور تجارتی منڈیاں ہوا کرتی تھیں۔ یہ لگ بھگ 1930 کی بات ہے جب موجودہ مقام پر ہندو آباد ی کی جانب سے مندر تعمیر کرنے کی تحریک شروع ہوئی۔ جس کا مقامی اکثریتی مسلمان آبادی میں قدرتی طور پر ردعمل آنا شروع ہوا اور انہوں نے کوشش کی کہ اس مقام پر مسجد بنائی جائے۔ لیکن مالی اعتبار سے کمزور لوگوں کے لیے طاقتور اور بارسوخ تاجروں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں تھا۔
اسی کشمکش میں یہ معاملہ عدالت میں چلا گیا، جہاں دونوں فریقین کے مابین آئینی جنگ شروع ہوگئی۔ اس دوران مسلمانوں کو کسی نے مشورہ دیا کہ وہ اگر راتوں رات اس جگہ پر مسجد بنادیں تو ان کا دعویٰ مضبوط ہوجائے گا اور فیصلہ ان کے حق میں ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں لوئر دیر کی 130 سالہ قدیم مسجد جو آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے
پھر ایک رات مقامی گاوٴں اور گردونواح کی مسلم آبادی مغرب کے بعد جمع ہونا شروع ہوئی اور انہوں نے فجر کی نماز تک یہاں پتھروں، گارے اور لکڑی سے ایک مسجد بنا کر اس میں فجر کی اذان دے دی۔
اگلے روز جب انگریز جج موقع کے ملاحظہ کے لیے آیا تو اس نے وہاں مسجد کی عمارت دیکھ کر مسلمانوں کے حق میں فیصلہ دیدیا۔ بعدازاں مسلمانوں نے نئی اور پختہ مسجد کی تعمیر شروع کی۔ تاہم ان کے پاس وسائل انتہائی محدود تھے۔
یہی وجہ تھی کہ تعمیراتی سامان کو پورا کرنے کے لیے مسلمانوں نے اپنے گھروں میں رکھے اجناس اور فصلیں تک فروخت کردیں تاکہ مسجد کی تعمیر کا عمل کسی صورت متاثر نہ ہو اور چند سالوں میں ایک خوبصورت اور دیدہ زیب عمارت تیار ہوگئی جسے دیکھ کر آج بھی قلب و روح کو اطمینان ملتا ہے۔
مذہبی و ماحولیاتی سیاحت کا مرکز
آج ایبٹ آباد آنے والا ہر سیاح اور مہمان لازماً الیاسی مسجد جاتا ہے اور اس کے قدرتی اور ٹھنڈے پانی کے چشمے دیکھ کر دل کو راحت پہنچاتا ہے۔ اگرچہ حالیہ سالوں کے دوران ماحولیاتی تبدیلیوں کے زیراثر یہاں کے پانی کے ذخائر بھی متاثر ہوئے ہیں اور مسجد کے باہر موجود بڑے تالاب کو ختم کردیا گیا ہے، اس کے باوجود ہر روز سینکڑوں مردو خواتین اور بچے یہاں پر آتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں 250 سال پرانی مسجد جس کی تعمیر میں جنات نے بھی حصہ لیا
الیاسی مسجد کے عقب میں واقع الیاس ٹاپ کو بھی مقامی انتظامیہ نے پارک کی شکل دے دی ہے جہاں سے پورے ایبٹ آباد شہر اور مشرقی پہاڑی سلسلوں کا دلفریب نظارہ ممکن ہے۔ ان اقدامات کی بدولت مقامی اور بیرون شہر سے آنے والے سیاحوں کی تعداد میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔
الیاسی کے پکوڑے
الیاسی مسجد آنے والے سیاحوں کی دلچسپی کی ایک اور وجہ یہاں کے لذیذ اور خستہ پکوڑے بھی ہیں۔ ایک مقامی دکاندار کے مطابق عام دنوں میں فی دکاندار اوسطاً 7 سے 8 من جبکہ گرمیوں کے موسم میں اس سے دُگنی مقدار میں پکوڑے فروخت ہوتے ہیں۔