تنخواہوں پر اضافی ٹیکس، عام آدمی کا گزارا کتنا مشکل ہوگیا؟

پیر 5 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث مڈل اور اپر مڈل کلاس کا گزارا دن بدن مشکل ہوتا جارہا ہے، بجلی، گیس کے بلوں میں بڑے اضافے کے ساتھ ساتھ اشیائے خورونوش کی بے لگام قیمتوں کے بعد اب تنخواہوں پر ٹیکس میں بڑے اضافے سے امیر لوگوں کی زندگیوں میں بھی مشکلات آگئی ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلے ہر موسم میں نئے اور مہنگے کپڑے خریدا کرتے تھے، ہر ہفتے باہر ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا کرتے تھے تاہم اب مہنگائی کے باعث سب کچھ محدود ہوگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر تجویز کردہ ٹیکس ختم ہو سکتا ہے؟

وی نیوز نے مختلف معاشی تجزیہ کاروں اور تنخواہ دار طبقے سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ مہنگی بجلی، مہنگائی اور ٹیکسز میں اضافے سے ان کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

ماہانہ ڈیڑھ لاکھ تنخواہ لینے والے شہری کے حالات

راجہ محب اسلم ایک نیٹ ورکنگ کمپنی میں گزشتہ 12 سال سے نوکری کررہے ہیں، انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ ان کی ماہانہ تنخواہ ڈیڑھ لاکھ روپے کے قریب ہے، پہلے ہر ماہ تنخواہ سے 3 ہزار روپے ٹیکس کٹوتی ہوتی تھی، بجلی کا بل 15 سے 20 ہزار روپے آتا تھا، دیگر اخراجات کے بعد کچھ پیسے جمع بھی ہو جاتے تھے کہ جن سے گرمیوں کی چھٹیوں میں کہیں سیر و تفریح کے لیے چلے جایا کرتے تھے، لیکن اب ایسا ممکن نہیں۔

راجہ محب اسلم نے کہاکہ اب بجلی کے بل 50 ہزار سے بڑھ گئے ہیں، تنخواہ سے 9 ہزار روپے ٹیکس کٹوتی ہونا شروع ہوگئی ہے، جبکہ اشیائے خورونوش مہنگی ہونے کے باعث گزارا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ ’پہلے جو کبھی مہینے میں ایک دو بار باہر ریسٹورنٹ پر کھانا کھانے جایا کرتے تھے، ہر موسم میں نئے سوٹ سلائی کرا لیتے تھے، اب وہ سب کچھ ختم ہوگیا ہے، اب کسی خوشی غمی میں رواج کے مطابق پیسوں کے ساتھ شرکت کرنا بھی ناممکن ہوگیا ہے‘۔

15 لاکھ روپے تنخواہ سے 5 لاکھ روپے ٹیکس کٹوتی

راشد زوراج ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں بڑے عہدے پر فائز ہیں، ان کی ماہانہ تنخواہ 15 لاکھ روپے سے زیادہ ہے، انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ چند سال قبل تک تو وہ کسی چیز کا حساب ہی نہیں کرتے تھے، اور تمام اخراجات کے بعد بھی ایک بڑی رقم محفوظ ہوجاتی تھی، لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پہلے بجلی کا بل 25 سے 30 ہزار روپے آتا تھا، اس کے علاوہ گراسری پر 40 ہزار روپے صرف ہوتے تھے، 25 ہزار کا گوشت اور 15 ہزار روپے دودھ پر خرچ آتا تھا، جبکہ تنخواہ سے ٹیکس کٹوتی ساڑھے 3 لاکھ روپے ہوتی تھی۔

راشد زوراج کے مطابق گزشتہ سال سے مہنگائی میں جو اضافہ ہوا ہے اس سے کافی حد تک وہ بھی متاثر ہوئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اب میرا بجلی کا بل ایک لاکھ روپے سے زیادہ آتا ہے، دودھ اور گوشث کا خرچ 70 ہزار سے زیادہ ہوگیا ہے، جبکہ گراسری پر ایک لاکھ روپے سے زیادہ صرف ہوجاتے ہیں، اور تنخواہ سے ٹیکس کٹوتی 5 لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے۔

’پہلے تو ہر 2 سال بعد نئی گاڑی خرید لی جاتی تھی لیکن اب ایسا ناممکن نظر آرہا ہے، ہر سال گرمیوں میں دبئی یا ترکیہ کی سیر کے لیے اور عمرہ کی ادائیگی کے لیے جاتے تھے، تاہم اب وہ بھی محدود کرلیا ہے، مہنگائی اور ٹیکس کے باعث جو خواب پہلے پورے ہوتے تھے اب ان کا پورا ہونا ناممکن ہوگیا ہے‘۔

تنخواہ دار طبقے کے لیے گزارا کرنا مشکل ہوگیا، شہباز رانا

معاشی تجزیہ کار شہباز رانا نے اس موضوع پر وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں اس وقت تنخواہ دار طبقے کا گزارا انتہائی مشکل ہوگیا ہے، بجلی اور گیس کے بلوں میں 100 فیصد اضافہ ہوگیا ہے، اس کے علاوہ تنخواہ سے ٹیکس کٹوتی کے بعد ان ڈائریکٹ ٹیکسز میں بے تحاشا اضافے نے بھی عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔ ’بہت سی کھانے پینے کی اشیا پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہوگیا ہے، جبکہ کچھ اشیا پر ودہولڈنگ ٹیکس بھی عائد کیا گیا ہے‘۔

شہباز رانا نے کہاکہ تنخواہ پر نئے ٹیکس عائد ہونے سے ایک طرف تو لوگوں کی آمدنی میں کمی ہوئی ہے اور دوسری طرف دیگر ٹیکسز عائد ہونے سے مہنگائی میں اضافہ ہوگیا ہے، اس سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ اپر مڈل کلاس والے افراد مڈل میں چلے گئے ہیں اور جو مڈل کلاس والے افراد تھے وہ سطح غربت کے پاس پہنچ گئے ہیں اور ادھار کی مدد سے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

یہ بھی پڑھیں بجلی کی بڑھتی قیمتوں اور تنخواہ دار پر ٹیکس کیخلاف ن لیگی رہنما سعد رفیق بھی چیخ اٹھے

پاکستان میں کم تنخواہ والے طبقے کے لیے مہنگائی کا اثر سب سے زیادہ ہے، شعیب نظامی

معاشی تجزیہ کار شعیب نظامی نے کہاکہ پاکستان میں کم تنخواہ والے طبقے کے لیے مہنگائی کا اثر سب سے زیادہ ہے، وفاقی حکومت نے بجٹ میں کم تنخواہ والے طبقے کے لیے انکم ٹیکس کی شرح دُگنی کردی ہے اور اسے ایک فیصد سے بڑھا کر اڑھائی فیصد کردیا ہے یہ وہ طبقہ ہے جس کی ماہانہ آمدن ایک لاکھ روپے تک ہے۔

انہوں نے کہاکہ بجلی کے بل مسلسل بڑھنے اور مہنگائی کے اثرات کھانے پینے کی اشیا پر پڑنے کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت کے اخراجات بھی بڑھ گئے ہیں۔

شعیب نظامی نے کہاکہ متوسط طبقے نے مہنگائی کے پیش نظر بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے کوششیں کم کردی ہیں، اچھے اسکولوں اور کالجوں سے بچوں کو نکال کر نسبتاً درجہ دوئم کے اسکولوں میں پڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

متوسط طبقے نے اپنی صحت کا خیال رکھنا بھی چھوڑ دیا

انہوں نے کہاکہ مہنگائی اور سیونگ نہ ہونے کے باعث متوسط طبقے میں شوگر، بلڈ پریشر اور دل کے امراض سمیت دیگر امراض کے مریض اپنی ماہانہ ادویات پر پیسے کم خرچ کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں آئی ایم ایف نے حکومت کو تنخواہ دار طبقہ سے مزید ٹیکس وصولی کا کہہ دیا

شعیب نظامی نے کہاکہ متوسط طبقے میں والدین نے بچوں کو دودھ دینے کی مقدار کم کردی ہے اور دودھ میں شربت یا دیگر چیزیں ملا کر بچوں کو مطمئن کررہے ہیں، یہ تمام وہ چیزیں ہیں جو پاکستان کی آئندہ نسلوں کی غذائی ضروریات متاثر کریں گی جس سے ان کی نشوونما پر اثر پڑے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp