مار دینے کی سازش

جمعرات 6 اپریل 2023
author image

ڈاکٹر فاروق عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’مجھے مار دیا جائے گا‘۔عمران خان دوسرے آدمی ہیں جنہوں نے یہ بات کہی ہے۔ پہلے کون تھے؟ کوئی اور نہیں ون اینڈ اونلی الطاف حسین تھے۔

یوں تو پچھلی صدی کی آخری دہائی پورے پاکستان کے لیے ہی کچھ زیادہ خوش گوار نہیں تھی لیکن کراچی کے لیے تو خاص طور پر نہیں تھی۔ یہ عین وہی دور تھا جب عروس البلاد جی ہاں، اس مارا ماری سے قبل کراچی کو اسی نام سے یاد کیا جاتا تھا لیکن جیسے جیسے عزیز آباد کے پیر ( الطاف حسین کے پیروکاروں نے عمران خان کے فدائین کی طرح مرشد کا لفظ ابھی تک نہیں سیکھا تھا لہٰذا پیر صاحب کہلاتے تھے) کا جادو چلتا گیا، عروس البلاد کا حُسن تاراج ہوتا چلا گیا۔

1987ء کے بلدیاتی انتخابات کے بعد الطاف حسین کی جماعت ایک طاقت بن کر ابھری۔ جس شام بلدیاتی نتائج آئے، آن کی آن میں چلنے والے واٹس ایپ پیغامات کی ایجاد میں ابھی تیس پینتیس برس باقی تھے، لہٰذا فوراً زمان پارک پہنچو جیسے پیغامات تو نہیں چلے لیکن سیاسی گروہوں اور جتھوں کے پاس اپنے فدائین سے فوری رابطوں کا ایک جادوئی نظام اس وقت بھی ہوا کرتا تھا۔ یہی سبب تھا کہ رات کے بھیگتے بھیگتے ہزاروں لوگ سینٹرل جیل کراچی کے گردا گرد جمع ہو گئے اور اس کی دیواریں گرا دینے کے بعد  الطاف حسین کو کاندھوں پر اٹھا کر عزیز آباد المعروف نائین زیرو پہنچا دیا گیا۔ زیادہ گہرائی میں اترنے کی ضرورت نہیں، بس اس واقعے کا موازنہ کچھ عدالتوں میں رونما ہونے والے واقعات سے کرنے کی ضرورت ہے جن میں دیواریں ٹوٹیں، دروازے ٹوٹے، پولیس اہل کاروں کے سر ٹوٹے، اس کے علاوہ بھی قانون سمیت جانے کیا کیا کچھ ٹوٹا۔

یہ ہاؤ ہو کی ابتدا تھی۔ 1988ء کے عام انتخابات کے بعد تو حوصلے مزید بڑھ گئے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں شہری سندھ سے الطاف حسین کا طوطی بولتا تھا۔ ان کے علاوہ اگر کوئی تھا بھی تو وہ بے چارہ کسی ایسی جگہ دُبک کر بیٹھتا تھا جہاں جان اور عزت دونوں سلامت رہیں۔ یہ واقعہ عام  انتخابات کے بعد کا ہے جب اس جماعت کی طاقت کراچی تا اسلام آباد مستحکم ہوئی اور شہری سندھ میں اس جماعت سے اختلاف کرنے والوں کی زندگی مشکل ہو گئی۔ کوئی دن نہیں جاتا تھا جب کراچی کے چاروں جانب سے آٹھ دس افراد کے اغوا اور دو تین کے قتل کی خبر سننے کو نہ ملتی۔ ہوتے ہوتے قتل و غارت گری ہمارے قریب پہنچ گئی۔

مَیں اس زمانے میں جامعہ کراچی کا طالب علم  تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ پورے کراچی پر الطاف حسین کی گرفت مکمل تھی لیکن ایک یہی جامعہ تھی جو ان کے قبضہ قدرت سے باہر تھی۔ اس پر قبضے کی ابتدا ایک قتل سے ہوئی۔ عامر سعید نام کا ہمارا ایک بھولا بھالا سا دوست تھا، بالکل کم عمر اور معصوم۔ اس کا قصور صرف ایک ہی تھا۔ قصور یہ تھا کہ تعلیمی اداروں میں الطاف حسین کی توسیع پسندی کے خلاف مزاحمت کرنے والی تنظیم یعنی اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ تھا۔ ایک روز اسی نوخیز کا لاشہ گھر پہنچا اور گلستان جوہر تا جامعہ کراچی کہرام مچ گیا۔کراچی میں ایک طرف یہ ہنگامہ دار و گیر برپا تھا، دوسری طرف ایک اور کہانی شروع ہوئی۔

متحدہ قومی موومنٹ نے انکشاف کیا کہ الطاف حسین کے قتل کی ایک سازش تیار گئی ہے۔ مبینہ سازش کی تفصیلات بھی بڑی دل چسپ تھیں۔ بتایا گیا کہ قاتلوں کا ایک جتھہ تیار کیا گیا ہے جنہوں نے ایسی انگوٹھیاں پہن رکھی ہیں جن میں نہایت مہارت کے ساتھ کوئی سوئی چھپی ہے۔ ان قاتلوں میں سے کوئی جب الطاف حسین سے آکر مصافحہ کرے گا تو یہ سوئی خود کار طریقے سے الطاف حسین کے جسم کو چھو کر اس میں زہریلا مواد داخل کر دے گی۔ یوں انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔ ایسی انگوٹھیوں سے مسلح کوئی جتھا آنا تھا، نہ آیا لیکن عروس البلاد کی مانگ اجڑتی چلی گئی۔

خیر، کراچی کے دکھوں کا تذکرہ طویل ہے۔ عامر سعید شہید کے واقعے کی تصدیق کے لیے برادر محترم نعمان لاری سے بات ہوئی۔ نعمان بھائی کی معلومات اور یاداشت اس ضمن میں کمال کی ہیں۔ عامر کے ذکر پر گویا دبستاں کھل گیا اور تجویز ہوا کہ کاش ایسا ہو کہ وہ اس زمانے کے واقعات سپرد قلم کر دیں۔ تنہا ممکن نہ ہو تو یہ دونوں بھائی مل کر ایسا کریں۔ دعا کریں ایسا ہو جائے تو نہ صرف پاکستان کی فراموش کردہ تاریخ کا ایک گم شدہ باب منصۂ شہود پر آئے گا بلکہ مستقبل کے لیے مرقع عبرت بھی ظہور میں آجائے گا۔ خیر، یہ تو ہو گا جب ہو گا، فی الحال عمران خان کے انکشاف کا ذکر ہے۔

عمران خان نے اپنے قتل کے منصوبے کا انکشاف کیا ہے۔ صرف منصوبے کا انکشاف نہیں کیا ہے بلکہ الطاف حسین کے انگوٹھیوں والے منصوبے کی طرح اس کی تمام تر تفصیلات بھی بیان کر دی ہیں۔ ویسے یہ بھی طرفہ ہے کہ قاتل اپنا پورا منصوبہ ہی اپنے ہدف تک پہنچا دیتا ہے، یعنی پولیس کا ایک جتھہ نکلے گا جو پہلے اپنے ساتھیوں کا خون کرے گا پھر خدا نخواستہ عمران خان کا۔ معاملہ الطاف کا ہو خواہ عمران کا، قتل کے منصوبے کا ایک طرف یہ مضحک پہلو ہے لیکن اس میں ایک مماثلت بھی ہے۔

کراچی میں جیسے قانون مظلوم بن گیا امن و امان کا خاتمہ ہوا اور بے گناہوں کا لہو پانی کی طرح بہایا گیا، اس بار بھی صورت حال مختلف نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے کیے جا رہے ہیں، ججوں کو یرغمال بنا کر انہیں فیصلوں سے روکا جا رہا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر صرف حملے نہیں کیے جا رہے، ان کے افسروں اور اہل کاروں کی جان تک خطرے میں ڈالی جا رہی ہے۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہے۔ عمران خان کی طرف سے اختیار کی گئی حکمت عملی کے مقاصد وہ دکھائی نہیں دیتے جو بتائے جا رہے ہیں بلکہ یہ معاملہ کراچی کے سانحے کے مماثل دکھائی دیتا ہے۔ کراچی میں جو ہنگامہ دارو گیر بپا ہوا تھا، اس کے نتیجے میں پاکستان کا یہ سب سے بڑا تجارتی مرکز تباہ ہو گیا اور صنعت و حرفت مٹتی چلی گئی۔

اُس زمانے میں کہا جاتا تھا کہ اس شہر میں ہر تین منٹ کے بعد ایک جہاز اترتا ہے لیکن بعد کے زمانے میں یہ مصروف ایئر پورٹ ویران ہو گیا اور کراچی کے مقابلے میں خلیجی ملکوں کے ساحلی شہر تجارت اور سیاحت کا محور بنتے چلے گئے جب کہ ہمارے شہر میں خاک اڑنے لگی۔ ایسا لگتا ہے کہ کراچی ایک چھوٹا منصوبہ تھا، حالیہ منصوبہ اس سے کہیں بڑا اور جامع ہے۔ سب سے پہلے اقتصادی راہ داری تباہ کی گئی تھی۔ اب معیشت کی بحالی دفاع سے مشروط کی جا رہی ہے۔ کراچی کی طرح اس تجربے میں بھی شدت اور بدامنی بڑھتی جا رہی ہے۔ اگر ابھی کسی نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو جانے یہ سلسلہ کہاں جا کے رکے گا؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp