آزاد کشمیر میں موسمِ گرما میں عارضی رہائش اختیار کرنے کے رحجان میں بہت تیزی سے کمی آرہی ہے جس سے منفی اثرات مرتب ہونے کے خدشات ہیں۔
موسمِ گرما میں دیہی علاقوں کے بہت سارے خاندان اپنے مویشیوں کے ہمراہ قریبی جنگلات یا پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں جہاں وہ 3 سے 4 ماہ گزار کر واپس گھروں کو لوٹتے ہیں۔ مقامی لوگ اپنے ان عارضی ٹھکانوں ’بہکوں‘ کا رخ اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے مویشیوں کو چرنے کے لیے وسیع سرسبز علاقے میسر ہوتے ہیں اور ساتھ ہی وہ سردیوں کے لیے لکڑی بھی اکٹھی کرلیتے ہیں لیکن متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ اب اس رجحان میں واضح کمی آرہی ہے۔
ڈویژنل فاریسٹ آفیسر (ڈی ایف او) توصیف میران نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لوگ اب پہلے کے مقابلے میں آرام پسند ہوچکے ہیں یا پڑھ لکھ کر شہروں کی طرف منتقل ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے وہ زراعت اور مویشیوں کی طرف توجہ نہیں دیتے جس کی وجہ سے مویشی کم ہوتے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مال مویشی میں کمی کی وجہ سے بہت کم لوگ بہکوں کا رخ کرتے ہیں جس کی وجہ سے بہکیں اب غیرآباد ہورہی ہیں۔
ڈی ایف او نے کہا کہ اگر اسی طرح سے بہکوں میں جانے کے رحجان میں کمی آتی رہی تو اس کے اثرات مال مویشی پر بھی پڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مال مویشی کم ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات نہ صرف شہروں تک پہنچیں گے بلکہ خطے کی جی ڈی پی پر بھی واضح اثرات مرتب ہوں گے۔
محکمہ جنگلات کے افسر نے کہا کہ بہکوں میں رہائش کے رحجان میں کمی وہاں پانی کی قلت کی وجہ سے بھی ہورہی ہے۔ انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پہاڑوں پر برف باری پہلے کے مقابلے میں کم ہورہی ہے جس کی وجہ سے پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
لوگوں کے بہکوں کی جانب رخ نہ کرنے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے لیے مال مویشی رکھنا بھی مشکل ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہکوں میں تعلیم، صحت یا آمد و رفت کے لیے سڑکیں بھی نہیں ہیں جس کی وجہ سے بہکوں میں رہائش اختیار کرنے کا رجحان کم ہورہا ہے۔
توصیف میران نے اس بات پر زور دیا کہ ہمارے ثقافی نظام اور لائف اسٹاک کے لیے بہتر یہی ہے کہ لوگ بہکوں میں جائیں اور اپنے مال مویشی بھی ساتھ رکھیں تاکہ گاؤں میں ان کی فصلیں محفوظ رہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر 2 سال تک لوگ بہکوں میں نہیں جائیں گے تو مائیکرو کلائمیٹ چینج ہوجائے گا جس کے بعد وہ چاہ کر بھی بہکیں آباد نہیں کر پائیں گے۔
ڈی ایف او توصیف نے کہا کہ مال مویشی ہماری جی ڈی پی کا ایک بہت بڑا حصہ ہیں اور یہ ہمارے کسانوں اور مقامی آبادی کی آمدن کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہیں اگر آپ اس کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو آپ کو ہر سال اپنے مال مویشیوں کو چراگاہوں میں لے کر جانا پڑے گا اور ان کے لیے کچھ محنت کرنی پڑے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر مویشی آہستہ آہستہ کم ہوتے چلے جائیں گے تو اس سے مجموعی پیداوار اور معیشت پر بھی فرق پڑے گا جس کے نتیجے میں سالانہ آمدنی میں کمی آئے گی جو ہمارے جیسے ممالک کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔
توصیف میران نے کہا اگر اس نظام کو بحال رکھنا چاہتے ہیں تو محکمہ جنگلات کی طرف سے اس کے لیے جتنی سہولت درکار ہے وہ فراہم کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر لائیو اسٹاک کو نفع بخش کاروبار میں تبدیل کرنا ہے تو اس کے لیے محکمہ جنگلی حیات اور باقی حکومتی ادارے مل کر کوئی ایسا منصوبہ بنا سکتے ہیں جس سے لائیو اسٹاک نفع بخش کاروبار میں تبدیل ہوجائے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سے لائیو اسٹاک کی طرف لوگوں کی دلچسپی بڑھے گی اور اس کا ماحول اور لوگوں کی معیشت پر مثبت اثر پڑے گا۔
محمد سائیں چھکڑیاں کے رہائشی ہیں اور وہ ہر سال اپنے خاندان کے ہمراہ بہک پر جاتے ہیں۔ وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہکوں کے نزدیک پانی کی سہولت نہیں ہے جس کی وجہ سے اب وہاں بہت کم خاندان جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلے بستی زیادہ بڑی تھی جو اب چھوٹی رہ گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہاں کی آب و ہوا اور غذا اچھی ہے لیکن کوئی سہولت نہیں ہے۔
سائیں نے کہا کہ وہ گھر بنانے میں پتھر، مٹی اور لکڑی کا استعمال کرتے ہیں تاہم برفباری سے ان کے گھر تباہ ہوجاتے ہیں یا ان کو معمولی نقصان پہنچتا ہے جس کی وجہ سے یہ گھر دوبارہ تعمیر یا مرمت کرنے پڑتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان گھروں میں ایک طرف وہ رہتے ہیں اور دوسری طرف جانور اور وہ ہر صبح اپنے جانوروں کو گھاس چرنے کے لیے کھول دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مال مویشی چرنے کے بعد خود ہی واپس آجاتے ہیں اور وہ ان کا دودھ استعمال کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بہکوں پر دیسی دودھ اور دیسی سبزی میسر ہوتی ہے لیکن دیگر سہولیات نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بہکوں پر آنے کے لیے مشکل راستوں سے گزرنا پڑتا ہے لیکن ان کے باپ دادا یہاں آتے رہے ہیں اور اس لیے وہ بھی یہاں آتے رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب وہ شہروں میں جاتے ہیں تو ان کو یہ جگہ بہت یاد آتی ہے۔