پچھلے 2 سے 3 ماہ پاکستانی کرکٹ ٹیم اور اس کے مداحوں کے لیے مایوسی سے بھرپور رہے ہیں۔ ٹیم نے نہ صرف باہمی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ناقص کارکردگی دکھائی بلکہ آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی بدترین کارکردگی دکھا کر پہلے مرحلے سے ہی باہر ہوگئی۔ ٹی ٹوئنٹی سیزن ختم ہو چکا ہے اور دیگر ٹیموں کی طرح پاکستانی ٹیم بھی ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والی ہے۔
پاکستان کے آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں مزید 9 ٹیسٹ میچز رہتے ہیں جن میں سے 7 ٹیسٹ میچ پاکستان نے اپنے گھر میں ہی کھیلنے ہیں۔ پاکستان اپنے ٹیسٹ سیزن کا آغاز 21 اگست سے راولپنڈی میں بنگلہ دیش کے خلاف کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ سے کرے گا۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین 2 ٹیسٹ کھیلے جائیں گے جس کے بعد انگلینڈ کی ٹیم 3 ٹیسٹ کھیلنے پاکستان آئے گی۔
انگلینڈ کے خلاف سیریز کے بعد پاکستانی ٹیم جنوبی افریقہ جائے گی جہاں اسے 2 ٹیسٹ میچ کھیلنے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے ٹور کے بعد پاکستان اگلے برس ویسٹ انڈیز کی 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے لیے میزبانی کرے گا اور یوں ویسٹ انڈیز کے خلاف 24 جنوری سے ملتان میں کھیلا جانے والا ٹیسٹ میچ پاکستان کا ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا آخری میچ ہوگا۔
اگر دیکھا جائے تو ہوم ٹیسٹ سیزن کے باعث پاکستان کے پاس ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل میں پہنچنے کا بھرپور موقع ہے۔ پاکستانی ٹیم کے پاس اس سے اچھا موقع نہیں ہو سکتا۔ تاہم اگر گزشتہ 2 برسوں میں ہوم ٹیسٹ سیزن کو دیکھیں تو ٹیم کا ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل میں جانا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان نے گزشتہ 2 سالوں میں اپنے ہوم گراؤنڈ پر کوئی ایک ٹیسٹ بھی نہیں جیتا۔ آسٹریلیا نے پاکستان کو 3 میچوں کی سیریز میں 0-1 سے شکست دی۔ پھر انگلینڈ نے 3 ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں گرین شرٹس کو وائٹ واش کیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز ڈرا رہی۔
پاکستانی ٹیم کی اپنے ہی گھر پر ٹیسٹ کرکٹ میں مایوس کن کارکردگی کی سب سے بڑی وجہ ‘مردہ’ پچز ہیں۔ انگلینڈ نے راولپنڈی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں پاکستانی بولروں کو تگنی کا ناچ نچاتے ہوئے پہلے دن ہی 500 رنز بنا ڈالے تھے۔ اسی طرح آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں بھی لاہور اور راولپنڈی کی پچز روڈ ثابت ہوئیں جبکہ نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں تو ایسا لگ رہا تھا جیسے پاکستانی ٹیم ڈرا کرنے کے لیے ہی کھیل رہی ہے۔
پی سی بی، کپتان شان مسعود اور کوچ جیسن گیلیسپی کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اگر پاکستان کو اپنے ہی گھر میں ٹیسٹ میچ جیتنے ہیں تو اس کے لیے پچز سپن اور بولنگ فرینڈلی بنانا ہوں گی۔ مردہ پچز پاکستان کی پہچان بلکہ جگ ہنسائی بن چکی ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی اتنے فلیٹ ٹریک نہیں بنائے جاتے جتنے پاکستان میں بنتے ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت کو دیکھ لیں۔ وہاں ٹیسٹ میچ جیتنا مہمان ٹیم کے لیے خواب ہے۔ پچز اتنی سپن فرینڈلی ہوتی ہیں کہ روی اشون، روی جدیجہ اور اکشر پٹیل ہنستے کھیلتے وکٹیں لیتے ہیں۔ جنوبی افریقہ کو دیکھ لیں، خوبصورت فاسٹ بولنگ پچز بنائی جاتی ہیں جہاں دونوں ٹیموں کے فاسٹ بولر بہترین بولنگ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیش اپنے ہوم گراؤنڈز پر اپنے مطلب کی پچز تیار کرتا ہے۔ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں بھی سپورٹنگ ٹریکس کی وجہ سے میچ کا نتیجہ ضرور نکلتا ہے جبکہ انگلینڈ کی پچز میرے خیال سے دنیا کی سب سے بہترین پچز ہیں۔ ہر ٹیم اپنے ہوم گراؤنڈز سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتی ہے اور اپنے پلیئرز کی ایوریج بہتر کرتی ہے لیکن ایک ہم ہیں کہ کسی صورت بھی پچز کو تبدیل کرنے پر رضامند نہیں ہیں۔
اگر پاکستانی ٹیم ہوم سیریز میں ہی کنڈیشننز سے فائدہ نہیں اٹھائے گی تو پھر کہاں اٹھائے گی؟ پاکستان ابھی ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں پوری طرح سے زندہ ہے۔ ٹیم نے 5 ٹیسٹ میچ کھیل رکھے ہیں جس میں اسے 2 میں جیت اور 3 میں شکست ہوئی ہے۔ آنے والے 9 میچز ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل میں جانے کے لیے بہت اہم ہیں اور اگر باقاعدہ معیاری پچز بنائی جائیں تو پاکستان آسانی سے فائنل میں پہنچ سکتا ہے۔
آخر میں بات یہ ہے کہ جہاں انگلینڈ، انڈیا اور آسٹریلیا کی ٹیمیں میچ ڈرا کرنے کا فیصلہ دماغ سے نکال کر ٹیسٹ کرکٹ کو زندہ کیے ہوئے ہیں وہیں پاکستان کی مردہ پچز ٹیسٹ کرکٹ کو پھر سے عوام سے دور لے جا رہی ہیں۔ کرکٹ کے اس جدید دور میں ٹیسٹ میچ ڈرا کرنے کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے کیونکہ کھلاڑیوں کو بھی اب صرف نتیجے سے دلچسپی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔