شادی بیاہ کے موقعے پر ہر علاقے کے کچھ مخصوص رسم و رواج ہوتے ہیں جوان تقریبات کو ایک دوسرے سے مختلف بناتے ہیں۔
وی نیوز نے اپنی اس رپورٹ میں قبائلی علاقوں میں شادی بیاہ میں رائج رسومات کا احاطہ کیا ہے۔
دلہنوں کا بناؤ سنگھار
پرانے زمانے میں قبائلی اضلاع بالخصوص مہمند اور باجوڑ کی دلہنیں بلکل بھی میک اپ نہیں کیا کرتی تھی کیوں کہ لوگوں کا خیال تھا کہ اگر ایسا کرنے سے ان کا اصل حسن ماند پڑجائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: غگ، ایک عورت دشمن قبائلی رسم
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے قبائلی ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والی ایڈووکیٹ ہائیکورٹ ہما امان مہمند نے بتایا کہ پہلے اگر کسی دلہن کا میک اپ کیا بھی جاتا تو لوگ کہتے کہ اس کا میک اپ ہٹادو کیونکہ وہ دلہن کی قدرتی خوبصورتی ماند کر رہا ہے۔
ہما مہمند نے بتایا کہ ہماری دلہنیں سرما، کھلی مہندی اور دنداسہ لگاتی تھیں اور اب بھی لگاتی ہیں لیکن اب وقت بدل چکا ہے اور وہ تھوڑا بہت میک اپ کرلیا کرتی ہیں۔
گڑا ماتے
گڑا کا مطلب ہے گڑ اور ماتے کا مطلب ہے توڑنا یعنی گڑ توڑنا۔ گڑا ماتے دعائے خیر کی تقریب کو کہتے ہیں۔ پرانے زمانے میں باجوڑ میں جب دعائے خیر ہوتی تھی تو لوگ اس موقعے پر گڑ تقسیم کیا کرتے تھے اور گڑ سے ہی ایک دوسرے کا منہ میٹھا کیا کرتے تھے۔
ہما مہمند نے بتایا کہ اب دعا کے موقعے پر مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں اور ایک باقاعدہ پروگرام منعقد ہوتا ہے لیکن پھر بھی کچھ لوگ اس کو گڑ ا ماتے ہی کہتے ہیں۔
فائرنگ
قبائلی ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ سے تعلق رکھنے والی عائشہ آفریدی نے وی نیوز کو بتایا کہ قبائلی اضلاع بالخصوص خیبر میں شادیوں میں فائرنگ کا رواج خاصا عام ہے۔ انہوں نے کہا کہ جیسے ہی دلہن کو گھر لایا جاتا ہے تو گھر کے سامنے یا نزدیکی خالی میدان میں گھر والے اور قریبی رشتہ دار فائرنگ کرتے ہیں جس کا مطلب ہوتا ہے کہ ہمارے لڑکے کی شادی ہو گئی ہے۔
مزید پڑھیے: باجوڑ میں ہر سال ہزاروں طلبہ میٹرک کے بعد تعلیم کو خیرباد کیوں کہہ رہے ہیں؟
عائشہ آفریدی نے کہا کہ میں اس رسم کے حق میں نہیں ہوں کیونکہ بعض اوقات اس فائرنگ کی وجہ سے یہ مواقع خوشی کی بجائے ماتم میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور جس کی کئی مثالیں بھی موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس رسم پر پابندی لگا دینی چاہیے۔
غونزاخی
غونزاخی قبائلی ضلع باجوڑ کی ایک میٹھی روایتی خوراک ہے۔ اس کے حوالے سے قبائلی ضلع باجوڑ کی تحصیل خار سے تعلق رکھنے والی شازیہ نے وی نیوز کو بتایا کہ غونزاخی باجوڑ کا ایک انتہائی قدیم اور روایتی میٹھا ہے۔
شازیہ کہتی ہیں کہ شادی کے موقع پر دلہن کارٹن بھر بھر کر یہ مٹھائی اپنے سسرال لے جاتی ہے اور شادی والے گھر میں یہی غونزاخی مہمانوں کو چائے کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔
مزید پڑھیں: قبائلی خواتین وراثت سے محروم کیوں؟
انہوں نے بتایا کہ دلہن شادی کے بعد جب میکے آتی ہے تو واپسی پر وہ دوبارہ اپنے ساتھ سسرال غونزاخی لے کر جاتی ہے اور پھر اس کے سسرال والے اس غونزاخی کو سب سے پہلے اپنے محلے والوں اور پھر رشتہ داروں میں بانٹتے ہیں تاکہ سب جان جائیں کہ ان کی بہو غونزاخی لے کر آئی ہے۔
شازیہ نے یہ بھی بتایا کہ غونزاخی کے علاوہ باجوڑ کی دلہن پکے ہوئے چاول، کڑاہی گوشت، چکن، گھر کے تندور میں پکی روٹیاں، مونگ پھلی، حلوہ، پھل اور سسرالیوں کے لیے کپڑے بھی لے کر جاتی ہے۔
ڈولی کندھوں پر اٹھانا
شازیہ نے بتایا کہ چونکہ پرانے زمانوں میں قبائلی اضلاع میں جب گاڑیاں نہیں ہوتی تھیں تو لوگ دلہن کو ڈولی میں لایا کرتے تھے جو 2 طرح کی ہوتی تھیں، ایک عام ڈولی اور ایک جپان۔
انہوں نے مزید بتایا کہ عام ڈولی لکڑی سے بنی ہوتی تھی اور بانس کے موٹے ڈنڈوں کے سہارے لٹکی ہوتی تھی جسے 4 لوگ پکڑ کر اٹھا سکتے تھے اور یہ ڈولی عام یا غریب لوگوں کے ہاں استعمال ہوتی تھی جبکہ جپان لوہے سے بنی ہوتی تھی جو بھاری ہوتی تھی اور جسے 10 کہار اٹھاتے تھے اور اس کا استعمال امیر لوگوں کے ہاں ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اب اس جدید دور میں ڈولی یا جپان کی رسم تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
ہر گھر سے روٹی اور چائے کا آنا
شازیہ نے بتایا کہ تمام قبائلی اضلاع میں کئی دنوں تک شادی کی تقریبات جاری رہتی ہیں جس دوران ہر گھر سے روز روٹی، سالن یا چائے ضرور آتی ہے کیونکہ ایسا کرنے سے برادری میں اتفاق رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ باجوڑ اور مہمند میں پرانے زمانے میں شادی والا گھر اپنے علاقے کے ہر گھر میں آٹا تقسیم کر دیا کرتا تھا پھر علاقے کی خواتین اس سے روٹیاں بنا کر مہمانوں کے لیے شادی والے گھر بھجواتی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب صبح ہوتی تھی تو ہر گھر سے چائے، پراٹھے اور مرغی کا تلا ہوا گوشت آتا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: برین ڈرین کی وجوہات کیا ہیں؟
شازیہ نے بتایا کہ چائے والا رواج اب بھی بالکل ویسے ہی برقرار ہے لیکن روٹی اور سالن بھجوانے والا سلسلہ گاؤں دیہاتوں میں تو ہے لیکن میدانی و شہری علاقوں میں تھوڑا کم ہو گیا ہے۔
رباب منگی اور تمبل
پختونوں کی شادی ہو اور رباب منگی نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں۔
اس حوالے سے شازیہ بتاتی ہیں کہ قبائلی اضلاع میں کئی دنوں تک حجروں میں رباب منگی کا پروگرام ہوتا ہے جس میں برادری کے تمام لوگ شرکت کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس موقعے پر علاقائی گیت گائے جاتے ہیں اور ساتھ میں اتن رقص کیا جاتا ہے اور تقریباً ہر گھر سے چائے وغیرہ آرہی ہوتی ہے۔
شازیہ بتایا کہ اسی طرح گھروں میں خواتین تمبل کا پروگرام کرتی ہیں جس میں ایک یا ایک سے زیادہ خواتین تمبل بجاتی ہیں اور اپنے علاقائی گیت گاتی ہیں۔
اتن
اتن کے حوالے سے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی میمونہ یونس نے وی نیوز کو بتایا کہ اتن ہماری شادیوں کا ایک لازمی جزو ہے۔
میمونہ نے کہا کہ ہماری خواتین گھروں کے اندر اتن کرتی ہیں اور مرد حجروں میں کرتے ہیں۔ میمونہ نے بتایا کہ ہمارا اپنا روایتی اتن ہے اور اتن کرنے کے لیے ہماری خواتین فراک پہنتی ہیں اور مرد حضرات اس کے لیے اپنا روایتی لباس پہنتے ہیں۔
مزید پڑھیں: قبائلی اضلاع میں لڑکیاں امتیازی سلوک کا شکار کیوں؟
انہوں نے بتایا کہ ہمارے قبائلی اضلاع میں یہ رسم رواج زمانہ قدیم سے چلے آ رہے ہیں اور ان کی وجہ سے ہماری شادیاں دیگرعلاقوں اور صوبوں سے مختلف ہیں۔
میمونہ نے کہا کہ ہماری شادیوں میں بھی جدت آرہی ہے لیکن پرانے رسم و رواج کا اپنا ہی مزہ ہے جنہیں زندہ رکھنا چاہیے۔