مصنوعی ذہانت کے ذریعے اب دل کے دورے کا پہلے سے سدباب ممکن

بدھ 7 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مصنوعی ذہانت کے ذریعے اب دل کے دورے کا پہلے سے ہی سدباب ممکن ہوگیا۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اگلے 10 سالوں میں دل کے دورے کے خطرے سے دوچار لوگوں کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کو سائنس دانوں نے ایک ’گیم چینجر‘ قرار دیا ہے۔ مصنوعی ذہانت ماڈل اب دل میں سوزش کا پتا لگالے گی جو سی ٹی  اسکین پر ظاہر نہیں ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: دل کے امراض میں خطرناک حد تک اضافہ، ماہرین صحت بچاؤ کے لیے کیا مشورہ دیتے ہیں؟

نیشنل ہیلتھ سروسز انگلینڈ کے تعاون سے ایک پائلٹ پروجیکٹ آکسفورڈ، ملٹن کینز، لیسٹر، لیورپول اور وولور ہیمپٹن کے 5 اسپتالوں میں چل رہا ہے اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے بارے میں فیصلہ چند ہی مہینوں میں متوقع ہے۔

اس تکنیک کی ڈویلپر آکسفورڈ یونیورسٹی کی اسپن آؤٹ کمپنی کیریسٹو ڈائیگنوسٹک کا کہنا ہے کہ وہ پہلے سے ہی فالج اور ذیابیطس کو روکنے کے لیے ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی پروفیسر کیتھ چنن نے کہا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی تبدیلی اور کھیل کو بدلنے والی ہے کیونکہ پہلی بار ہم دل کے اندر تنگی اور رکاوٹوں کی نشوونما سمیت ان مختلف حیاتیاتی عملوں کا پتا لگا سکتے ہیں جو انسانی آنکھ سے پوشیدہ پوشیدہ ہیں۔

تحقیق سے پتا چلا ہے کہ سوزش میں اضافہ دل کی بیماری اور دل کے مہلک حملوں کا سبب بنتی ہے۔

مزید پڑھیے: ذیابیطس کے علاج میں استعمال ہونے والی دوا امراض قلب میں بھی مددگار، مگرکیسے؟

برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کے مطابق برطانیہ میں تقریباً 7.6 ملین لوگ دل کی بیماری میں مبتلا ہیں اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس پر انگلینڈ میں این ایچ ایس کو اس پر سالانہ 7 اعشاریہ 4 ارب پاؤنڈز خرچ کرنے پڑتے ہیں۔

بی ایچ ایف نے کہا کہ برطانیہ میں ہر سال تقریباً ساڑھے 3 لاکھ مریضوں کو کارڈیک سی ٹی اسکین کے لیے بھیجا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: مصنوعی ذہانت کی مدد سے لڑکی کو اس کی کھوئی ہوئی آواز مل گئی

پروفیسر چارالمبوس اینٹونیاڈس کے مطابق اب تک دستیاب ٹولز قدیم تھے کیونکہ رسک کیلکولیٹر صرف عام خطرے کے عوامل کا اندازہ لگا سکتے ہیں، جیسے کہ مریض ذیابیطس، سگریٹ نوشی یا موٹاپا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب اس قسم کی ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم بیماری شروع ہونے سے پہلے ہی مریض کی شریانوں میں کسی نقصان دہ سرگرمی کے بارے میں بخوبی جان سکتے ہیں۔

انہون نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ ہم بیماری کے عمل کو ختم کرنے کے لیے جلد ہی آگے بڑھ سکتے ہیں اور اس مریض کا علاج کر سکتے ہیں تاکہ بیماری کو بڑھنے سے روکا جا سکے اور مریض کو دل کے دورے سے بچایا جاسکے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ کیئر ایکسیلنس فی الحال ٹیکنالوجی کا جائزہ لے رہا ہے تاکہ یہ تعین کیا جا سکے کہ آیا اسے پورے  این ایچ ایس میں متعارف کرایا جانا چاہیے یا نہیں۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال امریکا میں بھی زیر غور ہے اور اسے یورپ اور آسٹریلیا میں استعمال کے لیے منظور کر لیا گیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp