کچھ تو سیکھ لو ارشد ندیم!

بدھ 7 اگست 2024
author image

اسامہ خواجہ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

میاں چنوں کے ارشد ندیم پر آج کی رات بہت بھاری ہو گی۔ شاید اسے ٹھیک سے نیند بھی نہ آئے۔ کل اسے ایک بار پھر فطرت کے قوانین سے جنگ لڑنی ہے۔ پیرس نامی شہر میں جہاں اس کے پنڈ سے جوان ڈنکی لگا کر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، وہاں وہ 8 سو گرام کے ایک نیزے کو دور پھینکنے پورے پروٹوکول سے آیا ہے۔ اس کے ایک طلائی تمغے سے درجنوں افسروں کی ترقیاں وابستہ ہیں۔
جیتنے کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں۔ اگر جیتا تو پیسے اور پلاٹ دونوں نچھاور ہوں گے، لیکن ہارا تو واپسی کا کرایہ بھی خود بھرنا ہوگا۔ پھر اس کے دھی، پتر کو بھی کل کلاں بڑے ہو کر یہ بتانا ہے کہ ہمارے بابے نے تین دہائیوں بعد قوم کی گود ہری کی تھی۔ میاں چنوں والے بھی ٹی وی پر نظریں جمائے بیٹھے ہوں گے کہ کب یہ میڈل نکالے اور میڈیا والے دوڑتے ہوئے آئیں۔
مگر وہ کیا کرے، گروپ اسٹیج میں چوتھےنمبر پر آیا ہے، جس سے پہلی پوزیشن کا فاصلہ پونے تین میٹر کے نوری سال پر واقع ہے۔ ان پونے تین میٹرز کے بیچ قومی ترجیحات، وسائل کی دستیابی اور اعلی تربیت جیسے عظیم پہاڑی سلسلے سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ جن پر ٹی وی کے کسی تجزیہ کار یا اولمپکس کے تماشائی کی نظر نہیں جاتی۔
ایک طرف اس کا دوست نیرج چوپڑا ہے تو دوسری طرف اس کا خود سے مقابلہ ہے۔ اس کے مدمقابل جہاں بہترین آلات اور جدید ترین تکنیکس کے ساتھ میدان میں اتریں گے وہیں اس کی جیب میں حوصلے کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ اس کا بینک بیلنس بھی تو صرف جاں توڑ محنت ہے۔
برس ہا برس کی ریاضت اور کروڑوں امیدوں کی ڈور اسی کے بازو سے بندھی ہیں، جہاں شاید کبھی اس کی ماں تعویز باندھتی ہوگی۔ مزدور باپ کا بیٹا ہے، لاہور کراچی تک ہی پہنچ جاتا تو کافی تھا۔ مگر اعلیٰ افسران کی مہربانی جو اسے بیرون ملک بھیج کر ہیرو بنا ڈالا۔ پھر سوشل میڈیا اور کریڈٹ کی دوڑ نہ ہوتی، تو 90 میٹر دور جولین بھی ننگے پیر ہی دوڑ کر پھینک دیتا۔ ویسے باکسر حسین شاہ بھی تو ننگے پیر مقابلے کو اترا تھا۔ ارشد نے زخمی کہنی اور گھٹنے سے حساب برابر کرنے کی کوشش کی لیکن اگر جوتے نہ بھی ہوتے تو کون سی قیامت آجاتی۔
اس کے کندھوں پر 2 بھاری بھرکم بوجھ ہیں۔ ایک تو 32 سالہ توقعات کا ملبہ ہے۔ جیسے پوری قوم نے اسے ادھار میں تمغے دے رکھے ہیں اور اولمپکس کا فائنل مہینے کی یکم کی طرح ہے، جب اسے ادھار لوٹانا ہے۔
دوسرا مولا علی کا نعرہ مار کر اپنے کاندھوں کے زور سے اسے جولین کو 90 میٹر پار بھی پہنچانا ہے۔ ویسے ارشد کے پاس عالمی معیار کی جولین بھی شاید اکلوتی ہے۔ چار مہینے پہلے جب خراب ہوئی تو اس کے پاس کوئی دوسری نہیں تھی۔ اب سات، آٹھ لاکھ روپے کی جولین کے لیے کتنے افسران نے پاپڑ بیلے ہوں گے یہ تو سرکاری بابو ہی جانیں۔
میں تو اتنا جانتا ہوں کہ اِسی ارشد کے ایک پڑوسی نیرج کے لیے اس کی سرکار نے 177 جولین خریدی تھیں۔ یہاں ارشد لاہور کی گرمی میں اپنے پسینے نکالتا رہا اور وہاں اس کا یار نیرج یورپ کے موسم سے اپنا جسم ہم آہنگ کرتا رہا۔
اس کے چاہنے والوں کو اس کے زخموں یا زنگ آلود ورزشی آلات سے کوئی سروکار نہیں۔ انہیں پرواہ نہیں کہ پچھلے چار برس یہ کن افسران کے رحم و کرم پر رہا۔ انہیں تو اپنی جھوٹی انا کی تسکین کرنی ہے۔ انہیں تو بس دنیا کو یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم ہی ‘نمبر ون’ ہیں۔ ریاست کو بھی اس جیسے کردار بہت پسند ہیں، جنہیں سامنے رکھ کر وہ اپنی اولاد کو یہ بتا سکے کہ کچھ بھی مانگنے سے پہلے ارشد جتنی محنت کرو۔
ارشد میں جہاں بہت سی خوبیاں ہیں، وہیں کچھ کمزوریاں بھی ہیں۔ مثلاً اس کی ماں رضیہ پروین تو اسے چاند کا ٹکڑا ہی کہتی اور سمجھتی آئی ہے، مگر یہ بھلا کسی کرکٹر جتنا خوبصورت کہاں ہو سکتا ہے۔ اپنے آفریدی کو دیکھو تو وہ کسی ہالی ووڈ فلم کے اداکار سے کم ہے؟ تبھی تو ہر فلم اور اشتہار کا ہیرو تھا۔
کوئی مشورہ دینے والا ہو تو اسے بتائے کہ شیمپو، کریموں کے اشتہار میں جانے کے لیے انہیں ڈٹ کر استعمال کرو۔ کھیل کے ساتھ “لُکس” پر بھی توجہ دو گے توبات دال دلیے سے آگے جائے گی ورنہ کب بازار میں میڈل بیچنے پڑیں، معلوم نہیں!

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وی نیوز کے ساتھ بطور ایڈیٹر پلاننگ منسلک ہیں۔ اس سے قبل بھی مختلف قومی و بین الاقوامی میڈیا کے اداروں کے لیے کام کر چکے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp