غیر ملکی میڈیا اور دفاعی تجزیہ کاروں نے پاکستان کی جانب سے ایران کو شاہین میزائل 2 فراہم کرنے کے بھارتی دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ایران کے پاس اپنا انتہائی طاقتور خود کفیل میزائل سسٹم ‘ہے، جس کے ہوتے ہوئے اسے کسی دوسرے ملک کی مدد کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
غیر ملکی میڈیا اور دفاعی تجزیہ کاروں نے کہا کہ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کئی وجوہات کی بنا پر غیر منطقی، گمراہ کن ، غیر ذمہ دارانہ اور خطے میں کشیدہ صورت حال کو مزید ہوا دینے کے مترادف ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان نے اسرائیل پر حملے کے لیے ایران کو اسلحہ فراہم کرنے کی خبر مسترد کردی
ہندوستان ٹائمز کا دعویٰ اور جواب
ہندوستان ٹائمز نے دعویٰ کیا تھا کہ حماس کے پولیٹیکل سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ایران میں شہادت اور پھر ایران کی جانب سے اسرائیل سے بدلہ لینے کے لیے پاکستان ممکنہ طور پرپاکستان سے اسرائیل تک مار کرنے والا شاہین 2 میزائل ایران کو فراہم کرے گا، لیکن بھارتی اخبار کے اس دعوے کو کہیں بھی پذیرائی نہیں ملی بلکہ ماہرین نے اسے انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور خطے میں کشیدہ صورت حال کو مزید بھڑکانے کے مترادف قرار دیا ہے۔
مزید پڑھیں:بھارتی براہموس ایرو اسپیس کمپنی پر شکوک وشہبات کے بادل کیوں؟
دفاعی تجزیہ کاروں نے بھارتی اخبار کے ان دعوؤں کو ٹھوس بنیادوں پر مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ ایران کے پاس پہلے ہی بیلسٹک اور کروز میزائلوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے جو اسرائیل کی ریاست سے کہیں آگے تک مار کر سکتے ہیں۔
ایران کی میزائل صلاحیت اور پاکستان کی اسٹریٹجک توجہ
ایران کئی سالوں سے اپنی میزائل ٹیکنالوجی پر فعال طور پر کام کر رہا ہے اور اس شعبے میں مکمل طور پر خود مختار ہو گیا ہے۔ ایران کے اپنے میزائل تیار کرنے کے پروگرام جیسے شہاب، سیجل اور خرم شہر سیریز کی رینج 2000 کلومیٹر سے زیادہ ہے، جو خطے میں کسی بھی جگہ دشمن کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ خیال کہ ایران کو پاکستان سے میزائل ٹیکنالوجی درآمد کرنے کی ضرورت ہے، حقیقت کے بالکل برعکس دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان کے جوہری صلاحیت کے حامل ڈلیوری میزائل سسٹم بنیادی طور پر بھارت کو نشانہ بنانے کے لیے تیار کیا گیا تھا اور شاہین 2 میزائل کو بھی، جس کی رینج 2،750 کلومیٹر ہے، پاکستان نے خطے میں بھارت کے مقابلے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کی غرض سے زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کے لیے تیار کیا تھا۔
جوہری عدم پھیلاؤ کے حوالے سے پاکستان کا عزم
ماہرین نے بھارتی اخبار کے دعوؤں کو اس لیے بھی مسترد کر دیا کہ پاکستان جوہری عدم پھیلاؤ پر نہ صرف یقین رکھتا ہے بلکہ پاکستان عالمی جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے معاہدوں پر بھی سختی سے کاربند ہے، پاکستان ایک ذمہ دار جوہری ایٹمی طاقت ہے۔
یہ بھی پڑھیں:بنگلہ دیش میں حکومت کا خاتمہ، بھارتی میڈیا کی پاکستان پر چڑھائی
پاکستان اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے کہ جوہری صلاحیت کے حامل ڈلیوری میزائل سسٹم کو برآمد کرنے سے نہ صرف خطے میں عدم تحفظ اور عدم استحکام پیدا ہوگا بلکہ پاکستان کی ساکھ اور دیگر ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات کو بھی نقصان پہنچے گا۔ لہٰذا یہ دعویٰ کہ پاکستان اپنے اہم دفاعی وسائل ایران کو فراہم کرے گا، پاکستان کی پالیسی اور مقاصد سے مطابقت نہیں رکھتا۔یہ تصور کرنا بھی مضحکہ خیز ہے کہ پاکستان ایران کو جدید میزائل ٹیکنالوجی منتقل کرکے اپنے ہی اصولوں کی خلاف ورزی کرے گا۔
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی ایران میں شہادت کے بعد مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونے والی کشیدگی کے پیش نظر پاکستان کی جانب سے ایران کو درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل فراہم کرنے کی تیاری کی کہانیوں میں کوئی صداقت نہیں ہے اور یہ سیاق و سباق سے ہٹ کر ہیں۔
بھارتی دعوے مخصوص ایجنڈے کا حصہ
ماہرین جس طرح کے دعوے کیے جاتے ہیں وہ محض مفروضے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک بڑے ایجنڈے کا حصہ ہے، جو خطے میں تنازعات کو ہوا دینا چاہتا ہے۔ وائٹ ہاؤس کا جواب، جس میں اسرائیل کی حمایت اور ایرانی میزائل سرگرمیوں کی نگرانی پر توجہ مرکوز کی گئی تھی، یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اس طرح کے الزامات کتنے نازک ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ان بیانات کو ہندوستان ٹائمز کے دعوؤں کی توثیق کے طور پر نہیں بلکہ خطے میں امریکا کی پوزیشن کی توثیق کے طور پر غلط سمجھا جانا چاہیے۔