’کام تو ہے نہیں، موبائل پر یوٹیوب دیکھتا رہتا ہوں‘، اسکردو میں ریڈیو کا آخری مکینک

اتوار 11 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اطالوی سائنسدان گگلیلمو مارکونی نے جب 19ویں صدی کے اواخر میں ریڈیو ایجاد کیا تو لوگ یقین کرنے کو تیار نہ تھے کہ آواز بھی یوں ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجی جا سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے مارکونی نے ریڈیائی لہروں کا استعمال کیا اور معلومات تک رسائی اور تبادلے کے نظام میں انقلاب برپا کر دیا۔

مارکونی نے 1895ء سے 1899ء کے دوران اپنے ریڈیو ٹیلی گرافی تجربات کے ذریعے وائرلیس سگنلز کی ٹرانسمیشن کے کامیاب تجربات کیے تھے۔ ان کی پہلی وائرلس ٹرانسمیشن 2 میل کے فاصلہ پر محیط تھی جو انہوں نے اپنے والد کی اٹلی میں موجود جاگیر پر کی اور پھر یہ 8 میل یا اس سے زائد فاصلے کے درمیان کی گئی۔

اس کے بعد انگلش چینل اور پھر بحر اوقیانوس کے پار سگنلز بھیجے گئے جس میں انگلش کے حرف ایس ‘S’ کو کینیڈا کے علاقے نیو فاؤنڈ لینڈ سے برطانیہ مارس کوڈ کی صورت میں بھیجا گیا۔

وقت کے ساتھ ریڈیو نے بھی ترقی کی اور مختلف شکلوں میں انسانی زندگی کا لازمی جزو بن گیا۔ شروع میں لوگ چوپال یا کسی ایک گھر میں جمع ہو کر ریڈیو سنتے لیکن آہستہ آہستہ ہر گھر میں ریڈیو آ گیا۔

یہی وجہ تھی کہ ہر گلی محلے میں ریڈیو ٹھیک کرنے والے کی دکان لازمی ہوتی جسے ریڈیو مکینک یا ریڈیو ساز کہا جاتا تھا مگر اب ریڈیو اور ریڈیو مکینک بھی ختم ہوتے جارہے ہیں۔

یہی حال اسکردو میں بھی ہے جہاں ڈیڑھ 2 دہائیاں پہلے 30 سے زائد ریڈیو مرمت کرنے والوں کی دکانیں تھیں مگر اب یہاں ریڈیو مکینک محمد ارشاد کی دکان ہی باقی رہ گئی ہے۔

اسکردو کے اس آخری ریڈیو مکینک کی 50  سال پرانی دکان پر پچھلے ادوار میں ہر وقت رش لگا رہتا تھا مگر اب وہاں مہینوں کسی گاہک کی شکل نظر نہیں آتی۔

محمد ارشاد نے وی نیوز کو بتایا کہ اسکردو بازار میں 30 کے قریب ریڈیو مکینک ہوا کرتے تھے جن میں سے کئی فوت ہو گئے جبکہ باقی نے یا تو کاروبار تبدیل کر لیا یا پھر اسلام آباد، لاہوراور کراچی جا کر مزدوری کرنے لگے۔

محمد ارشاد کے پاس اب کون لوگ ریڈیو ٹھیک کروانے آتے ہیں؟

محمد ارشاد ضعیف ہیں اور ان میں اب کوئی دوسرا کام یا کاروبار کرنے کی ہمت ہے اور نہ ہی وسائل۔ ان کے واحد گاہک پہاڑوں پر رہنے والے بکروال ہیں جو صرف گرمی کے دنوں میں بازار آتے ہیں اور ان میں سے 2،4 ان سے اپنے ریڈیو ٹھیک کرواکر لے جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اب وہ ٹارچ، استری یا کوئی دیگر چیز ٹھیک کر کے چند روپے کما لیتے ہیں جس سے ان کی دال روٹی چل جاتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسکردو کا یہ آخری ریڈیو مکینک خود بھی ریڈیو نہیں سنتا۔ وہ معلومات اور تفریح کے لیے اسمارٹ فون استعمال کرتے ہیں۔

ان کا کام ٹھپ ہو گیا ہے لیکن انہیں کوئی شکوہ نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ زمانہ بدل گیا ہے اور اسمارٹ فون کی شکل میں پوری دنیا ہاتھ میں اٹھائے گھومنے والوں کی تسلی اب ریڈیو سے نہیں ہو سکتی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کام تو ہے نہیں، موبائل پر یوٹیوب دیکھتا رہتا ہوں‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp