پاکستان میں رائج سودی نظام معیشت کو خلاف شریعت قرار دیتے ہوئے گزشتہ سال اپریل میں وفاقی شرعی عدالت نے حکومت کو 5 سال میں بلا سود معاشی نظام قائم کرنے کا حکم دیا تھا اور اس فیصلے کا اس وقت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ فیصلہ پر اسٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر عملدرآمد کیا جائے گا اور اس ضمن میں شرعی عدالت کی رہنمائی بھی حاصل کی جائے گی۔
سودی نظام کے خاتمے کے لیے ایک سال میں کیا ہوا؟
وفاقی وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کے مطابق پاکستان میں اسلامی بینکاری تیزی سے بڑھ رہی ہے اورخطے میں پاکستان اسلامک بینکنگ میں بہت آگے ہیں، وزارت خزانہ شرعی عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہے اورسمجھتی ہے کہ پاکستان سے سودی نظام کا خاتمہ ہونا چاہیے،ہم نے کمیٹی تشکیل دی ہے جوبلا سود معاشی نظام لانے پر کام کر رہی ہے۔
بلا سود معاشی نظام لانے کے لیے قائم کمیٹی کیا ہے؟
وزارت خزانہ نے ملک بھر سے سودی نظام کے خاتمے اور بلا سود معاشی نظام نافذ کرنے کے لیے کمیٹی قائم کی ہے،اس کمیٹی میں اسٹیٹ بینک ، وزارت خزانہ ، اسلامک بینکاری کے ماہر علماء اور کمرشل بینک کے نمائندے شامل ہیں،یہ کمیٹی تمام مکاتب فکر کے علماء کو ساتھ لے کر چل رہی ہے اور ان سے رہنمائی حاصل کر رہی ہے جبکہ معاشرتی ماہرین بھی کمیٹی کی رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔
سودی نظام کے خاتمے کے لیے حکومتی اقدامات پر اراکین اسمبلی کی رائے کیا ہے؟
جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی کا کہنا ہےکہ گزشتہ سال ماہ رمضان میں وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ آیا تھا اور 31 دسمبر تک حکومت نے آگاہ کرنا تھا کہ کیسے سودی نظام کا خاتمہ ہو گالیکن اس ایک سال میں حکومت نے یہ کیا ہے کہ شرح سود 14 سے بڑھ 21 فیصد تک چلی گئی ہے۔
عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ میرا انسداد ربا بل قومی اسمبلی کی خزانہ کمیٹی کے ایجنڈے پر ہی نہیں لایا جا رہا، بل کی منظوری سے سودی نظام کے خاتمے میں مدد ملے گی، میں نے بل کو خزانہ کمیٹی کے ایجنڈے میں رکھنے کے لیے اسپیکر سے بھی درخواست کی ہے۔
وفاقی وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے اس حوالے سے بتایا کہ مانیٹری پالیسی اسٹیٹ بینک کی ایک کمیٹی دیکھتی ہے، ملک بھر میں شرح سود 14 سے 21 فیصد کرنے میں حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے، شرح سود کا تعین کرنے میں اسٹیٹ بینک کا کردار ہے۔