سابق وزیراعظم و بانی پی ٹی آئی عمران خان نے 9 مئی کے واقعات پر مشروط معافی کا اعلان کیا اور کہاکہ اُس روز ہونے والے واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کی جائے، اگر ان کی پارٹی کو لوگ توڑ پھوڑ میں ملوث نکلے تو وہ معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ ایسے رہنماؤں اور کارکنوں کو پارٹی سے نکال دیں گے، اور پھر جو سزا بنتی ہو وہ بھی انہیں دی جائے۔ انہوں نے یہ بیان حال ہی میں فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس میں معافی کے مطالبے کے جواب میں اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی بات کرتے ہوئے دیا۔ مگر اگلے ہی لمحے میں وہ کہنے لگے کہ 9 مئی کے متاثرین تو وہ خود ہیں، انہیں انصاف چاہیے۔ کیا فوجی ترجمان کی عزت ہے اور ایک پارٹی کے سربراہ کی کوئی عزت نہیں۔ ان کے اغوا پر ان سے معافی مانگی جائے۔ پھر اگلے روز ایک اور بیان میں کہاکہ ان کی بات کا غلط مطلب لیا گیا، معافی انہیں ہم سے مانگنی چاہیے جنہوں نے ہمارے لوگوں کو اغوا کیا۔
عمران خان نے سب کو کنفیوژ کر رکھا ہے۔ آئے روز ایک بیان دیتے ہیں اور اگلے روز بیانیہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ لگتا ہے کہ عمران خان نے سی سی ٹی وی ویڈیوز سامنے لانے کا مطالبہ بغیر سوچے سمجھے کردیا۔ لاتعداد ایسی فوٹیجز موجود ہیں جہاں ان کی پارٹی کے عہدیدار اور کارکنان حساس تنصیبات پر ہجوم کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں بلکہ یہی لیڈر اپنے کارکنان کو چھاؤنیوں میں لے کر گئے۔ ایک طرف عمران خان کہتے ہیں کہ انہوں نے جی ایچ کیو یا کور کمانڈر ہاؤس کے باہر پرامن احتجاج کی کال دی تھی۔ مگر کسی بھی سیاسی جماعت کے رہنماؤں اور کارکنان کو کنٹرول کرنا بھی لیڈرشپ کی ذمہ داری ہوتی ہے، مگر ان تمام واقعات میں ایسا نہیں ہوا۔ کارکنان نے جذباتی ہوکر توڑپھوڑ، لوٹ مار کی اور آگ لگائی۔
ایک طرف عمران خان کہتے ہیں کہ ان سمیت جماعت کے تمام لیڈرز اور کارکنان کے خلاف کیسز ختم کرکے انہیں رہا کیا جائے تو دوسری طرف وہ کہتے ہیں کہ اگر ان کے لوگ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہیں تو انہیں سزا دی جائے۔ ان کے لیڈرز اور کارکنان جو ان کے کہنے پر وہاں گئے اور پھر پکڑے گئے وہ کیا سوچیں گے کہ ان کی پارٹی کے قائد مشکل وقت میں ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں اور حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ ایسے تمام لوگوں کو سزا دیں جنہوں نے وہاں توڑ پھوڑ کی اور آگ لگائی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کو کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کریں۔ معافی مانگیں یا مذاکرات کی درخواستیں کریں۔ ان کے مخالفین بھی عمران خان کو کنفیوژن اور مایوسی کے عالم میں گھرے سیاستدان کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ایک طرف وہ اپنے کارکنان کو امید دلاتے ہیں کہ یہ حکومت دو مہینے کی مہمان ہے اور ان سے مذاکرات کسی صورت نہیں کریں گے۔ دوسری طرف وہ ایسے بیان دیتے ہیں جنہیں دیکھ کر ان کے اپنے لوگ بھی حیران ہو جاتے ہیں۔ پھر اگلے روز وہ اپنے بیان سے مکر جاتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں پر وہ کہتے ہیں کہ بہت جلد پاکستان میں کچھ بڑا ہونے والا ہے۔ کل شیخ مجیب الرحمان کو وہ ایک عظیم لیڈر کے طور پر پیش کررہے تھے، اور آج جب بنگلہ دیش میں ان کے مجسمے گرائے گئے تو صاف کہنے لگے کہ وہ تو حمودالرحمان کمیشن کی رپورٹ کے حوالے سے کہہ رہے تھے کہ شیخ مجیب غدار نہیں تھے۔ کبھی کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں عدالتوں میں شفاف ٹرائل نہیں ہوتا، ویگو ڈالا آتا ہے اور لوگوں کو اغوا کرلیا جاتا ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد انہوں نے جو راستہ اختیار کیا آج ان کی پارٹی اور پورا پاکستان اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ تحریک انصاف کے بیشتر رہنما تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں قومی اسمبلی سے استعفے نہیں دینے چاہیے تھے۔ پارلیمنٹ میں رہ کر ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرتے تو آج سیاسی طور پر ان کی جماعت زیادہ قد آور ہوتی۔ اسی طرح پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑنے کے بجائے دونوں صوبوں میں اپنی کارکردگی کو بہتر بناتے۔
آج ان کی پارٹی کے رہنما کہتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں رہ کر لڑیں گے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے خیال میں اس وقت قومی اسمبلی سے استعفے دینا اور صوبائی اسمبلیوں سے نکلنا پارٹی قیادت کی بہت بڑی غلطی تھی جس کے نتائج انہیں آج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فروری 8 کے الیکشن میں عمران خان کی پارٹی کا مینڈیٹ چھینا گیا جس پر ان کے سیاسی نقاد بھی ان کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں۔ مگر ان سب غلطیوں اور ملک کو ایک عرصے سے ہیجانی کیفیت میں رکھنے کے ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ عمران خان خود ہیں۔ ان کے ایسے اقدامات سے آج ملک میں اظہار رائے کی آزادی اور شخصی آزادیاں متاثر ہوئیں جس کا ازالہ اگلے کئی سال تک نہیں ہوسکے گا۔ اگر وہ معافی مانگنے کے لیے تیار نہیں تو بہتر ہے پوری قوم ان سے معافی مانگ لے۔