سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو پاک فوج نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے اور ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔
پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر ) کی طرف سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے پاک فوج کی جانب سے لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں کی گئی شکایات کی درستگی کا پتہ لگانے کے لیے ایک تفصیلی کورٹ آف انکوائری کا آغاز کیا گیا، اور ان پر ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیاں ثابت ہوچکی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا، کورٹ مارشل کی کارروائی شروع
آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ جس کی بنیاد پر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔
ٹاپ سٹی مقدمہ کیا ہے جو فیض حمید کو تحویل میں لینے کا سبب بنا؟
گزشتہ برس 8 نومبر کو سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل میں دائر ہونے والی درخواستوں کو سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا‘ یہی وہ نقطہ تھا جس کے تحت عدالت عظمیٰ نے ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی ٹاپ سٹی کے مالک معیز احمد اور برطانیہ میں مقیم پاکستانی زاہدہ جاوید اسلم کی درخواستیں نمٹا دی تھیں اور جنرل (ر) فیض حمید جو اس مقدمے میں کئی دیگر افسران کے ساتھ فریق تھے وہ پیش ہونے سے بچ گئے۔ لیکن سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ جس کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کررہے تھے، انہوں نے کہاکہ جنرل (ر) فیض حمید پر سنجیدہ نوعیت کے الزامات ہیں۔
آج آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی مقدمے سے متعلق الزامات کے تحت کورٹ مارشل کا آغاز کردیا گیا ہے۔
2017 میں زاہدہ جاوید اسلم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جو کہ ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کی زمین کی ملکیت کے جھگڑے سے متعلق تھی۔ ٹاپ سٹی ہاؤسنگ کی زمین کا جھگڑا زاہدہ جاوید اسلم اور کنور معیز احمد خان کے درمیان تھا۔ اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دونوں فریقین کو چیمبر میں بلا کر اس معاملے میں ایف آئی اے، انسداد دہشتگردی اور راولپنڈی پولیس کو نوٹسز جاری کئے تھے۔ لیکن موجودہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ نے 8 نومبر 2023 کو اس کارروائی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
اس مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ کنور معیز احمد خان اور زاہدہ جاوید اسلم کے درمیان ٹاپ سٹی کی ملکیت کا معاملہ متعلقہ عدالتی فورم پر حل ہو گیا تھا۔ تاہم کنور معیز احمد خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 12 مئی 2017 کو ان کے مئوکل اور اہلخانہ کو اغوا کیا گیا تھا۔
کنور معیز احمد خان نے اپنی درخواست میں موقف اپنایا کہ آئی ایس آئی کے افسران نے 12 مئی 2017 کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کی ایما پر ٹاپ سٹی کے ہیڈ آفس جی الیون مرکز پر چھاپہ مارا اور وہاں سے زمین کی رجسٹریاں، کیش، سونا اور دیگر قیمتی دستاویزات قبضے میں لے لی تھیں۔
انہوں نے درخواست میں جنرل (ر) فیض حمید سمیت کئی سابق فوجی افسران کو فریق بنایا تھا۔ درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ اس ریڈ کا مقصد درخواست گزار کی زمین پر قبضہ کرنا تھا۔ لیکن اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ اس حوالے سے عدالت کیا کر سکتی ہے؟
چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کیا سپریم کورٹ نے اس معاملے پر کوئی نوٹس لیا تھا؟ اس پر درخواست گزار کے وکیل چوہدری حفیظ الرحمٰن نے کہاکہ سپریم کورٹ نے براہ راست تو کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کنور معیز احمد خان کی سپریم کورٹ ہیومن رائٹس سیل میں دائر کی گئی درخواست پر ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ انہوں نے بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ ہیومن رائٹس سیل میں دی گئی درخواستیں غیر قانونی قرار دی تھیں۔
چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیاکہ سابق یا حاضر سروس فوجی افسران کے خلاف شکایات کے لیے متعلقہ فورم کیا ہے؟ اس پر درخواست گزار کے وکیل چوہدری حفیظ الرحمان نے بتایا کہ وزارت دفاع انکوائری کرنے کی مجاز ہے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہاکہ کسی زاہدہ جاوید اسلم نامی ایک خاتون کی درخواست بھی زیر التوا ہے، جس پر چوہدری حفیظ الرحمان نے کہاکہ ان کا انتقال ہو چکا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہیومن رائٹس سیل میں ازخود نوٹس کے تحت کس طرح سے درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو اب تک اس کیس سے ہم سمجھ پائے وہ آپ کو بتا رہے ہیں، جو درخواست ہمارے سامنے ہے یہ بھی 184 تین کے ہی تحت دائر کی گئی ہے۔
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ ہیومن رائٹس سیل اور سپریم کورٹ میں فرق ہے، ہیومن رائٹس سیل کسی قانون کے تحت قائم نہیں، جو معاملہ جوڈیشل دائرہ اختیار میں آیا ہی نہیں اس پر چیف جسٹس نے سماعت کیسے کی؟ بعد ازاں سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ان چیمبر سماعت اور عدالتی کارروائی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ رولز 1980 کے مطابق رجسٹرار آفس کی جانب سے کسی درخواست پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کے خلاف صرف چیمبر اپیل کا تصور موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں جب سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید سپریم کورٹ کارروائی سے بال بال بچے
عدالت نے کہاکہ زاہدہ جاوید اسلم کی درخواست پر متعلقہ عدالت پہلے ہی فیصلہ کر چکی ہے اور کنور معیز احمد خان ریٹائر فوجی افسران کے خلاف وزارت دفاع اور متعلقہ فورمز پر درخواستیں دائر کر سکتے ہیں۔
بعد ازاں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کی درخواست پر پاک فوج نے انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کی۔