عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوتا؟

منگل 13 اگست 2024
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جسٹس منصور علی شاہ جو اگلے چند ماہ میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس بننے والے ہیں ہمیشہ سے نرم مزاج، دھیما انداز گفتگو اور آئین و قانون کے مطابق فیصلے دینے والے جج سمجھے جاتے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ مقدمات کی سماعت میں کوئی بڑے بڑے ریمارکس نہیں دیتے بلکہ سماعت کے دوران وکلا سے ہمیشہ ٹیکنیکل اور آئینی و قانونی سوالات پوچھتے ہیں۔ مگر پچھلے چند روز میں وہ 2 دن لگاتار سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد کروانے کے حوالے سےحکومت کو تنبیہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔

اپنے ایک فیصلے میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نہ تو ایڈوائزری نیچر کے ہوتے ہیں اور نہ ہی یہ کوئی سفارشات ہیں کہ حکومت اس پر عملدرآمد چاہے کرے یا نہ کرے بلکہ عدالت عظمٰی کے فیصلوں پر عمل کرنا آئینی ذمہ داری ہے۔

سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے اگلے روز ہی ایک تقریب میں بطور مہمان خصوصی خطاب کے دوران انہوں نے پھر عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کرنے پر زور دیا اور ان کے لہجے اور الفاظ سے بظاہر یہی نظر آرہا تھا کہ مستقبل کے چیف جسٹس کس قدر ناخوش ہیں۔

اپنے خطاب میں انہوں نے یہاں تک کہا کہ اگر کوئی نیا نظام لانا ہے تو وہ بتائیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میرے پاس اختیار ہوگا تو ایسا نہیں ہوگا۔ یعنی جب وہ چیف جسٹس بنیں گے تو ایسا نہیں ہوگا۔

جسٹس منصور علی شاہ کی یکے بعد دیگرے 2 وارننگز سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے والے دنوں میں عدلیہ اور حکومت کے درمیان معاملات کس نہج پر پہنچنے والے ہیں۔ فی الحال تو عدالتوں میں گرمیوں کی چھٹیاں ہیں اور جیسے ہی چھٹیاں ختم ہوں گی تو عدالت عظمیٰ اور حکومت کے درمیان ایک بڑا میچ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔

ماضی میں ہم نے عدلیہ اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ کی صورت حال کا کئی بار مشاہدہ کیا ہے، اس میں جسٹس سجاد علی شاہ اور بے نظیر حکومت ہو یا پھر نواز شریف یا جسٹس ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس عمر عطا بندیال کا لیگی حکومت سے ٹکراؤ ہو یا پھر جسٹس افتخار چوہدری اور پیپلزپارٹی حکومت کے درمیان ٹکراؤ ہو۔

عدلیہ اور حکومت کے درمیان ان تمام ٹکراؤ میں عدلیہ کا پلڑا تب ہی بھاری نظر آیا جب اسٹیبلشمنٹ کی عدلیہ کو سامنے یا پس پردہ کوئی حمایت حاصل رہی ہو۔

 جب بھی اسٹیبلشمنٹ نے عدلیہ سے اپنا ہاتھ کھینچا، عدلیہ بے بس نظر آئی اور اس کی سب سے اہم مثال جسٹس عمر عطا بندیال کی ہے۔

انہوں نے بہت کوشش کی کہ انتخابات اسی تاریخ پر ہوں جس کا انہوں نے اعلان کیا، لیکن پوری کوشش کے باوجود وہ ایسا نہ کروا سکے۔اب جسٹس منصور علی شاہ بھی مخصوص نشستوں سے متعلق اپنے فیصلے پر عملدرآمد کروانے کے لیے جو وارننگ دے رہے ہیں اگر حقیقت پسندانہ سوچ سے دیکھا جائے تو اس میں بھی ایسے کئی سوالات جنم لیتے ہیں جن کی بنیاد پر فیصلے پر مکمل عملدرآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔

تاہم شاید جزوی طور پر اس پر عملدرآمد ہوجائے۔ جزوی سے مراد ان 39 اراکین جنہوں نے پی ٹی آئی کے حلف نامے کے ساتھ الیکشن لڑا تھا ان کو مان لیا جائے اور ان کے کوٹہ سے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں مل جائیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ان کے پاس اختیار ہوگا تو وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے یعنی عدالتی فیصلوں پر ہر صورت عملدرآمد کروائیں گے۔

یہ بات جسٹس منصور علی شاہ بخوبی جانتے ہیں کہ آئین کے تحت بطور جج سپریم کورٹ ان کے پاس وہ تمام اختیارات ہوں گے جو کہ ایک چیف جسٹس کے پاس ہوتے ہیں کیونکہ آئینی طور پر سپریم کورٹ کے تمام ججز کے پاس مساوی اختیارات ہوتے ہیں ایسا نہیں کہ چیف جسٹس کے اختیارات باقی ججز سے زیادہ ہوں۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد تو چیف جسٹس کے سو موٹو لینے اور بینچ تشکیل دینے کے اختیارات بھی 3 رکنی ججز کمیٹی کے پاس چلے گئے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ ابھی بھی اتنے ہی بااختیار ہیں جتنے بطور چیف جسٹس ہوں گے اس لیے اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کروانے کے لیے چیف جسٹس بننے کا انتظار کیسا؟

دوسری بات یہ کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد کروانے کے حوالے سے حکومت کو بار بار متنبہ کررہے ہیں۔ جب کہ آئین کے آرٹیکل 187 (2) کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد کروانے کی ذمہ داری ہائی کورٹس پر ہے۔

وہ متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کو بلوائیں اور ان سے پوچھیں کہ اب تک عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوا۔ حکومت کو کوسنے یا وارننگ دینے کی بجائے وہ آئینی راستہ اپناتے ہوئے ہائی کورٹ کے ذریعے اپنے فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔

تیسری بات یہ جیسا اوپر عرض کیا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کا شمار ریمارکس دینے والے ججوں میں نہیں ہوتا بلکہ وہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا تو ان کی ذمہ داری ہے ہی، ساتھ ہی یہ بھی ان کی ذمہ داری ہے کہ سپریم کورٹ کے اپنے رولز کے مطابق مختصر فیصلہ دینے کے 30 دنوں کے اندر تفصیلی فیصلہ جج جاری کردیں گے۔ یہ زیادہ مناسب ہوتا کہ وہ مقررہ وقت میں مخصوص نشستوں سے متعلق اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے۔ اس سے کم از کم جو حکومت اور الیکشن کمیشن کے اعتراضات یا سوالات تھے جس بنیاد پر اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا وہ تو دور ہوجاتے۔

بڑھتی ہوئی اس کشیدگی کے باوجود اب بھی امید یہی کی جاتی ہے کہ جس طرح پورے کیریئر میں جسٹس منصور علی شاہ کا بطور ایک جج کنڈکٹ رہا، وہ کسی محاذ آرائی کی بجائے معاملے کو آئین اور قانون کے  مطابق ڈیل کریں گے۔

یہ بھی اُمید ہے کہ جو بھی حکومتی اعتراضات اور سوالات ہیں ان کے جوابات تفصیلی فیصلے میں ضرور ہوں گے اور اس طرح مخصوص نشستوں والا معاملہ خوش اسلوبی سے نمٹایا جائے گا۔ کیونکہ موجودہ حالات میں ملک کسی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا اور تمام ادارے اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp