اگر حکمران طبقات کی آنکھ سے دیکھا جائے تو پاکستان کے 76 برس میں جتنا اونچا نام غداروں نے کمایا ہے، شائد ہی کسی اور ملک کا ایسا ریکارڈ ہو۔
پاکستان کی پہلی مجلسِ قانون ساز کے پہلے اسپیکر جوگندر ناتھ منڈل کو اتنا تنگ کیا گیا کہ وہ 1950 میں کولکتہ چلے گئے۔ جانے سے پہلے انہوں نے انتہائی طویل استعفیٰ لکھا جس میں دو قومی نظریے کو پاکستان بننے کے بعد دوسری اقلیتوں پر لاگو کرنے کے بجائے پاکستانی شہریوں کو اکثریتی بلڈوزر سے کچلے جانے کے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے لکھا کہ آخر میں سب ہی غدار قرار پائیں گے۔ منڈل جیسا آدمی کیوں نئے پاکستان سے اتنا ناامید ہوکر چلا گیا، اس پر دھیان دینے کے بجائے یہ ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ وہ تو شروع سے ہی کانگریسی ایجنٹ تھا۔
یونائیٹڈ بنگال کو جس شخص نے پاکستان کا حصہ بنانے کے لیے آخر تک ایڑی چوٹی کا زور لگایا اس کا نام حسین شہید سہروردی ہے۔ مگر پاکستان بننے کے 2 برس بعد سہروردی صاحب کی اسمبلی رکنیت منسوخ کرنے کے لیے بہانہ یہ تراشا گیا کہ وہ ان 2 برسوں میں کولکتہ میں رہے اور بھارتی شہریت سے دستبردار نہیں ہوئے۔
لیکن جب پاکستان کے لیے نئے آئین کی تیاری اور ملک کے دونوں حصوں کو ون یونٹ کے ترازو میں برابر برابر دکھانے کے لیے کسی ایسے ماہر وکیل کی ضرورت پڑی جو مشرقی بنگال کی 56 فیصد اکثریت 6 فیصد کم کرکے مغربی پاکستان کی 44 فیصد آبادی کو 50 فیصد تک دکھانے کا فارمولا قبول کرنے پر بنگالیوں کو راضی کرسکے تو پھر اسی اسٹیبلشمنٹ نے اسی مشکوک پاکستانی کو پہلے وزیرِ قانون بنایا اور پھر وزیراعظم کا عہدہ پیش کردیا۔
جب ایوب خان کا مارشل لا لگا تو جن کرپٹ رہنماؤں کو 6 برس کے لیے سیاست میں حصہ لینے سے روکا گیا۔ ان میں حسین شہید سہروردی بھی شامل تھے۔ سہروردی کو پاکستان مخالف بتا کر جیل میں رکھا گیا۔ رہائی کے بعد انہیں ملک چھوڑنا پڑا اور بیروت میں سہروردی صاحب کا انتقال ہوا۔
غفار خان کے بڑے بھائی ڈاکٹر خان صاحب پاکستان بننے کے بعد تک صوبہ سرحد میں کانگریسی حکومت کے وزیراعلیٰ رہے اور یوں دونوں بھائی غدار قرار پائے، مگر 8 برس بعد یہی ڈاکٹر خان صاحب مغربی پاکستان کے وزیراعلیٰ بنا دیے گئے، جبکہ چھوٹے بھائی غفار خان کے نام پر آج پشاور کا باچا خان ایئرپورٹ ہے۔
جب جناح صاحب کی بہن فاطمہ نے 1964 میں جنرل ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب لڑا تو ان پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام لگا۔ غیر شادی شدہ زندگی اپنانے کے سبب ان کی کردار کشی کے لیے ایک سے ایک مسخرے کو میدان میں اتارا گیا۔ دھونس دھمکی اور دھاندلی کے ذریعے انتخاب ہروایا گیا۔ فاطمہ جناح کا دل اچاٹ ہوگیا۔ اور پھر جولائی 1967 میں وہ اس دنیا سے خاموشی سے چل بسیں۔
شیخ مجیب الرحمان اور ان کے ساتھیوں پر 1967 میں ایوب خان نے اگرتلہ سازش کیس کا مقدمہ چلایا۔ الزام یہ تھا کہ انہوں نے بھارت سے سانٹھ گانٹھ کرکے مسلم بنگال کوپاکستان سے الگ کرنے کی سازش رچائی ہے۔ پھر اچانک سے انہیں حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دے کر آزاد کردیا گیا اور جب شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے 1970 کے انتخاب میں سب حریفوں کا صفایا کردیا تو سب سے بڑی پارٹی کا لیڈر ہونے کے باوجود انہیں غدار ڈکلیئر کرکے قید کردیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کے وزیرِ خارجہ تھے، 1965 کی جنگ کے بعد بھٹو نے استعفیٰ دے کر پیپلزپارٹی بنائی اور 1970 کے پہلے عام انتخابات میں اترنے کا فیصلہ کیا تو اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر مذہبی سیاسی جماعتوں نے جم کے پروپیگنڈا کیاکہ بھٹو صاحب کا مسلمان ہونا بھی مشکوک ہے۔ 120 مولویوں نے فتویٰ دیا کہ بھٹو کو جو مسلمان بھی ووٹ دے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ مغربی پاکستان کے عوام نے اسی بھٹو کو جتایا۔ مگر پروپیگنڈا اتنا گہرا تھا کہ جب 4 اپریل 1979 کو جنرل ضیا کی سرکار نے بھٹو کو پھانسی دی تو ان کے دھڑ کا باقاعدہ معائنہ کرکے تصدیق کی گئی کہ ان کے ختنہ ہوئے ہیں یا نہیں۔
جنرل ضیا کے مرنے کے بعد بھٹو کی بیٹی بینظیر 1988 میں پہلی بار وزیراعظم بنی تو قائد حزبِ اختلاف نواز شریف نے انہیں پاکستان کے جوہری پراجیکٹ کے لیے ایک سیکیورٹی رسک بتایا۔ یہ الزام بھی لگا کہ بینظیر نے خالصتان تحریک سے جڑے سکھوں کی فہرست راجیو گاندھی کے حوالے کی ہے۔ پھر جب اسی نواز شریف نے وزیراعظم بن کے بھارت سے تجارت مضبوط کرنے کی بات کی تو پھر بینظیر بھٹو نے پچھلا بدلہ لینے کے لیے نعرہ لگایا کہ بھارت کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے۔
غدار سہروردی اور بھٹو ایک ایک بار، غدار بینظیر 2 بار اور بھارت کا یار نواز شریف 3 بار وزیراعظم بنے۔
2018 میں عمران خان وزیراعظم بنے تو ان سے بڑا دیش بھگت کوئی نہیں تھا۔ پونے چار برس بعد عمران خان کو گدی سے اتارنے کے بعد ان پر 100 سے زیادہ جو مقدمے بنے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ عمران خان نے امریکا پاکستان تعلقات سے متعلق ایک ڈپلومیٹک کیبل چوری کرکے پاکستان کی سیکیورٹی کو خطرے میں ڈالا۔ 9 مئی کو عمران خان کے حامیوں نے جب لاہور میں کور کمانڈر کے گھر کو آگ لگائی تو پاکستان سے عمران خان کی دشمنی پر پکی پکی مہر لگ گئی۔ اب بس وہی محبِ وطن ہے جو عمران خان کو وطن دشمن کہے۔
اس ری سائیکلنگ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جس رہنما پر اب غداری کا شک نہ ہو اسے عام آدمی شک سے دیکھتا ہے۔
ایک زمانے تک غدار ہونا بھی بڑے کینڈے اور اعزاز کی بات تھی۔ ہر ایرا غیرا غدار بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کے لیے کم ازکم تعلیم، سیاسی و انتظامی تجربہ و مناسب شہرت درکار تھی اور یہ کہ شہرت ملکی سطح تک نہیں تو صوبائی سطح تک ضرور ہو۔ مگر آج تو یوں لگتا ہے کہ غداروں کی سیل لگی ہوئی ہے۔ ہر دو پر ایک مفت۔
جب سے پچھلے 3 ماہ کے دوران ’ڈیجیٹل ٹیررازم‘ متعارف ہوا ہے تو غداری کے شیئرز کا بھاؤ اور گرگیا ہے۔ اب امید ہو چلی ہے کہ ایک نہ ایک دن ہماری طرف بھی کسی کی نطرِ کرم ہوجائے گی۔