13 اگست 1948 میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان نے کشمیر پر پہلی قراداد منظور کی گئی جس میں کشمیر میں جنگ بندی، فوجوں کے انخلا اور کشمیریوں کا اپنی مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی قرارداد منظور کی تھی۔
جنوری 1947 سے نومبر 1965 تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے 16 جبکہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان یعنی یواین سی آئی پی کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر 2 قرار دادیں منظور کی جاچکی ہیں، تاہم 76 سال گزرنے کے باوجود آج تک ان قراردادوں پر عمل در آمد نہیں ہو سکا ہے۔
آزاد کشمیر پریس فاونڈیشن کے وائس چیرمین سید ابرار حیدر نے وی نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ جواہرلال نہرو کی تحریک پر جو قرارداد منظور ہوئی اس پر بھارت نے خود ہی عملدرآمد نہیں کیا جس کی وجہ سے انسانی المیہ نے جنم لیا ور ریاست تقسیم ہو گئی۔
’13 اگست 1948 کی قرارداد سمیت دیگر قرارداوں کو نہ مانتے ہوئے انڈیا نے 5 اگست کو جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کے کسی بھی ضابطے کو نہیں مانتا ہے۔‘
اقوام متحدہ کے طرف سے اپنے قراردادوں پر عمل درآمد کرانے میں ناکامی کے 40 سال بعد مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں نے 1988 میں بھارتی جبر اور غاصبانہ قبضے کیخلاف بندوق اٹھائی جس کے بعد بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں عام لوگوں پر بے پناہ ظلم ڈھایا۔
مبصرین کے مطابق بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں مقامی لوگوں کا قتل عام کیا، نوجوانوں اور بچوں کو گھروں سے اٹھا کر غائب کیا گیا، ان کو تشدد کرکے اجتماعی قبروں میں دفنایا گیا، سینکٹروں ٹارچر سیل قائم کیے گئے جہاں کشمیری نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا یہاں تک بہت سے معذور بھی ہوگئے۔
اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا و پاکستان کی کشمیر پر پہلی قرارداد کو 71 سال ہونے والے ہی تھے کہ فقط 8 روز قبل یعنی 5اگست سنہ 2019 کو انڈیا نے کشمیر کا ؐمحاصرہ کرکے اس کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمہ کا اعلان کردیا، انڈیا کی شہریوں کو کشمیر میں زمین خریدنے کی اجازت دی اور جموں و کشمیر کو انڈیا کے زیر انتظام دو الگ الگ یونٹس میں تقسیم کیا۔
اس سے قبل انڈیا نے 4 اگست 2019 کو وادی کشمیر کا فوجی محاصرہ کیا جس کے لیے مزید 2 لاکھ پیراملٹری فورسز کو کشمیر پہنچایا گیا تھا، جہاں پہلے ہی 7 لاکھ فوجی، پولیس اور پیراملٹری کے جوان موجود تھے، 9 لاکھ فوجیوں نے وادی کشمیر کی ایک کروڑ آبادی کو اپنے گھروں میں محصور کیا اور فون اور انٹرنیٹ بند کردیا۔
ماہرین کے مطابق انڈیا نے اپنے اقدامات کے خلاف کسی مزاحمت کو روکنے کے لئے گھروں پر حملے کیے اور 40 ہزار نوجوانوں کو اغوا کیا جن میں بعض کو انڈیا کے جیلوں میں منتقل کیا گیا۔ انڈیا نے کشمیر میں اپنے کنٹرول کو مضبوط کرنے کے لیے 9 ماہ وادی کشمیر کا محاصرہ جاری رکھا۔
اس دوران انڈیا نے 40 لاکھ سے زیادہ بھارتی شہریوں کو کشمیر کا ڈومیسائل جاری کرکے وہاں کی ڈیموگرافی تبدیل کی، انڈیا کی انہی اقدامات کی وجہ سے پوری دنیا میں تشویش کی لہر پیدا ہوگئی تھی اور امریکا کی ایک غیر سرکاری تنظیم جینوسائیڈ واچ نے جینوسائیڈ الرٹ جاری کیا تھا۔
آزاد کشمیر کے معروف کالم نگار راجہ شوکت اقبال نے وی نیوز کو بتایا کہ 13 اگست 1948 کی قرارداد میں کہا گیا تھا کہ کشمیر میں جنگ بندی ہو، پاکستان اپنی فوج، قبائلی اور شہری واپس بلائے جبکہ انڈیا اپنی افواج کی کم از کم تعداد برقرار رکھے گی اور کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا استصوابِ رائے کا موقع دیا جائے گا۔
’اس کے بعد بھی کشمیر میں رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کے سیاسی مستقبل کے فیصلے کے بارے میں اقوام متحدہ نے متعدد قراردادیں منظور کیں، لیکن اس کے باوجود مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوا، دونوں ممالک نے اپنی فوجیں واپس نہیں بلائیں اور اقوام متحدہ نے بھی اس بارے میں ابھی تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔‘
راجہ شوکت اقبال نے کہا کہ 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا تعین کرنیوالی 2 آئینی دفعات کو ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعہ منسوخ کرتے ہوئے کشمیر کا بڑا حصہ اپنے اندر ضم کرلیا۔
’بھارتی حکومت نے یہ سب اقوام متحدہ کی چھتری کے نیچے کیا، یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کے بارے میں تحفظات ہیں، کشمیری بھارتی اقدامات کے خلاف اور اپنی آزادی کے لیے مزاحمت اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کا مطالبہ کررہے ہیں۔‘