پاکستان میں ابتر معاشی حالات اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے سبب ہر کوئی بیرون ملک جانے کا خواہشمند ہے۔ اس کا ایک بین ثبوت پاکستان بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے وہ اعداد و شمار ہیں جس کے مطابق گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران آٹھ لاکھ بتیس ہزار تین سو انتالیس (832،339) پاکستانی بیرون ملک سدھار چکے ہیں۔ ھب کہ صرف رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کو خیر باد کہنے والوں کی تعداد تقریباً سوا لاکھ ہے۔
معاشی بنیادوں پر کی جانے والی ہجرت کا ایک عجیب پہلو یہ ہے کہ پردیس میں جا بسنے والے پاکستانی بہتر زندگی تو پالیتے ہیں مگر اس کے باوجود اپنے ملک میں رمضان کی رونقیں نہیں بھول پاتے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کچھ سمندر پار پاکستانیوں کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی یادوں کو بُھلانا آسان نہیں ہے، اپنے ملک کے بغیر عیدیں اور رمضان بہت بے معنی سے لگتے ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جو پچھلی تمام یادیں تازہ کر دیتا ہے، گلی محلے کی رونقیں بُھلانا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے‘۔
یہاں سحر و افطار میں جگانے کے لیے کوئی اعلان ہوتا ہے نہ ہی کوئی ڈھول بجا کر وقت سحر ہوجانے کی یاد دلاتا ہے۔
’پاکستان میں گزرا سحر و افطار کا سماں‘
تیس سالہ انس احمد کا تعلق پاکستان کے شہر حیدرآباد سے ہے، جو چھ ماہ قبل حصولِ روزگار کے لیےجرمنی پہنچے ہیں۔ انس احمد نے وی نیوز سے بات گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ پاکستان میں گزرا سحر و افطار کا سماں بہت یاد آتا ہے۔ مجھ سمیت میرے بہت سے دوستوں کا پاکستان سے باہر یہ پہلا رمضان ہے اور ہم سب ایک چیز کو بہت یاد کرتے ہیں اور وہ سحر اور افطار میں مساجد سے ہونے والے اعلانات اور گلیوں میں ڈھول بجا کر جگانے والے افراد ہیں۔ جرمنی میں ایسی کسی چیز کی اجازت نہیں ہے‘۔
ایک سوال کے جواب میں انس احمد کا کہنا تھا کہ اپنے گھروں کے دسترخوان بہت یاد آتے ہیں امی کے ہاتھ کے پراٹھے اور پاکستانی کھانے تو لا جواب ہیں۔
’عزیز آباد کی نہاری اور حلیم‘
46 سالہ میر علی ایک تاجر ہیں اور گزشتہ 8 برس سے امریکا کے شہر ڈیلس میں رہائش پذیر ہیں۔ میر علی پاکستان کے شہر کراچی سے تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے رمضان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’کراچی کی رونقوں کا کوئی نعم البدل نہیں، کراچی میں سحر کا وقت بہت یاد آتا ہے، دوستوں کے ساتھ عزیز آباد کی نہاری اور حلیم کھانے جایا کرتے تھے‘۔ میر علی کے مطابق ’ہر رمضان کی آمد پر کراچی کے رمضان کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ ہر بار یہی خواہش ہوتی ہے کہ کراچی کے انداز میں سحری اور افطار کی جائے‘۔
’یہ گراٹو جلیبی والا رمضان نہیں ہے‘
25 سالہ اقرا سعودیہ کے شہر جدہ میں ایک اسکول ٹیچر ہیں۔ ان کا تعلق راولپنڈی کے مشہور کمیٹی چوک سے ہے، جو شہر کے گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔ اقرا نے وی نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان میں مہنگائی کی شرح بڑھتی جا رہی تھی، جس کے باعث عام آدمی کا گزارا مشکل ہوتا جا رہا تھا، یہی وجہ تھی کے مجھے سعودیہ آنا پڑا تا کہ میں اپنے گھر والوں کا سہارا بن سکوں، میرا یہ گھر والوں کے بغیر پہلا رمضان ہے، اور میری سوچ سے بھی زیادہ مشکل ہے۔‘
اقرا کے مطابق ’اپنے شہر کی سی رونقیں کہیں نہیں ملتیں۔ پنڈی میں تھی تو پورا سال رمضان کا انتظار کرتی تھی تا کہ افطاریوں کا سلسلہ شروع ہو‘۔ ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ’رمضان کا آغاز ہمیشہ گراٹو جلیبی سے ہوتا تھا، تاہم اس بار اس سے محروم ہوں‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ میرے لیے رمضان کا چاند دیکھنا بہت ادھورا تھا، کیونکہ اس بار نہ ہی جیلبی کھانا نصیب ہوا اور نہ ہی گھر والوں کے ہمراہ حسب سابق رمضان کی خوشی منا سکی‘۔
اقرا کہتی ہیں ’یہاں سب عجیب ہے، یہاں رمضان میں پاکستان جیسی رونق نظر نہیں آئی، گو کہ میں یہاں بھی ایک فیملی کے ہمراہ رہتی ہوں مگر سحر اور افطار کا اپنے گھر جیساماحول نہیں ہے‘۔
’بازاروں میں عید کا رش اور رونقیں‘
گزشتہ 4 برس سے آسٹریلیا میں مقیم 26 سالہ ماہ رخ فضل کا تعلق بھی راولپنڈی سے ہے اور وہ ’میلبرن‘ میں بیچلرز کی طالبہ ہیں۔ ماہ رخ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’رمضان کے آغاز سے اس کے اختتام تک ہر لمحہ اپنا وطن، اپنا شہر اور اپنا گھر یاد آتا ہے۔ رمضان میں گھر والوں کے ساتھ سحری اور افطاری کرنا، دعوتوں میں جانا سب بہت یاد آتا ہے۔‘
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’پاکستان میں تھی تو رمضان کے آخری عشرے میں گھر والوں کے ساتھ عید کی شاپنگ کرنے جاتی تھی۔ میں بازاروں کی ان رونقوں کو ترس گئی ہوں‘۔
’ رمضان بھی رمضان نہیں لگتا‘
شمائله امریکی ریاست ورجینیا میں ایم بی اے کی طالبہ ہیں، ان تعلق پاکستان کے شہر گوجرانوالہ سے ہے۔ وی نیوز سے گفتگو میں شمائلہ نے بتایا کہ ’وہ سب سے زیادہ اذان کو یاد کرتی ہیں‘۔ ان کے مطابق ’میں نے یہاں کبھی اذان کی آواز نہیں سنی، امریکا میں دوران رمضان میں مغرب اور فجر کی اذان کو شدت سے یاد کرتی ہوں، کیوں کہ اذان کے ساتھ سحر و افطار کا اپنا ہی مزہ ہے۔ یہاں اذان کے بغیر رمضان بھی رمضان نہیں لگتا‘۔
شمائلہ نے اذان کی صداؤں کی عدم موجودگی کا حل ایک ایپ میں ڈھونڈ نکالا ہے۔ کہتی ہیں کہ ’میں نے ایک ایپ ڈاؤن لوڈ کر رکھی ہے جس کے ذریعے اذان و نماز کے اوقات دیکھتی اور سحر و افطار کرتی ہوں‘۔ انہوں نے تراویح کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں مل کر تراویح پڑھنے کا کلچر بہت ہی خوبصورت ہے‘۔
پردیس میں موجود دیگر بہت سے ہم وطنوں کی طرح شمائلہ بھی رمضان کے آخری عشرے کو یاد کرتی ہیں۔ اس حوالے سے ان کا تھا کہ ’ اپنے گھر والوں کے ساتھ رمضان کی طاق راتوں میں عبادت کرنا بھی بہت یاد آتا ہے جو کہ یہاں اس طرح میسر نہیں ہے۔‘