بلوچستان کی سرزمین جہاں سنہرے ساحل، بلند و بالا پہاڑوں، خوبصورت گھاٹیوں، ریشمی صحراؤں اور حسین وادیوں پر مشتمل ہے اسی طرح یہاں بسنے والی اقوام بھی مختلف ثقافتوں اور زبانوں کی امین ہیں۔
پٹھان، بلوچ، ہزارہ، پنجابی، سندھی، سرائیکی اور دیگر زبانیں بولنے والے لوگ اس حسین خطے میں بستے ہیں جن کی تہذیب اور زبان ایک دوسرے سے مکمل طور پر مختلف ہے، لیکن مادر ملت کی قومی زبان اردو ان مختلف زبانوں کے بولنے والے افراد کو ایک پرچم تلے یکجا کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں گوگل کی کاوش سے بلوچی زبان معدوم ہونے سے بچ گئی
بات ہو اگر بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی تو یہاں بھی مختلف اقوام کے لوگ بستے ہیں جو اپنے اپنے لہجوں میں اردو زبان بولتے ہیں، ایسے میں چند محاورے ایسے ہیں جو اردو اور مقامی زبان کی آمیزش سے بنائے گئے ہیں۔
ان محاوروں میں زبان زد عام ایک محاورہ ’چرت مت مارو‘ یعنی فکر نہ کرو، ’خپ پکڑو‘ یعنی چپ ہو جاؤ، سمیت کئی ایسے محاورے ہیں جو اردو اور دیگر زبانوں کی آمیزش سے بنائے گئے ہیں، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ محاورے سوائے بلوچستان کے باسیوں کے اور کسی علاقے کا شخص نہیں سمجھ سکتا۔ انہی محاوروں کو اگلی نسل تک منتقل کرنے کے لیے کوئٹہ کے نجی کیفے کے مالک نے اپنے کیفے کی ایک دیوار کو ان منفرد محاوروں سے سجا رکھا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ محاورے ختم ہوتے جارہے ہیں، کیفے مالک
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے محمد مزمل نے بتایا کہ ہر علاقے کی ایک اپنی روایتی بول چال ہوتی ہے، جیسے کراچی کے لوگ ایک الگ لہجے میں اردو بولتے ہیں، جسے دوسرے علاقے کے لوگ آسانی سے نہیں سمجھ سکتے۔ اسی طرح کوئٹہ اور بلوچستان میں بسنے والے لوگ بھی کچھ ایسی اردو استعمال کرتے ہیں جو صرف یہاں بسنے والے لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ جب ہم نے سوچا کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مقامی محاورے ختم ہوتے جارہے ہیں تو کیوں نہ ان محاوروں کو زندہ اور تابندہ رکھنے کے لیے کیفے میں ایک خصوصی وال بنائی جائے جس پر یہ تمام تر محاورے درج ہوں۔
یہ بھی پڑھیں میں ٹھیٹھ پنجابی ہوں، دل چاہتا ہے اپنی زبان کو بطور مضمون متعارف کرایا جائے، مریم نواز
انہوں نے کہاکہ بس اسی سوچ کی بنیاد پر میں نے یہ قدم اٹھایا، اب کیفے پر نئی نسل باآسانی ان محاوروں کو یاد کرسکے گی اور یہ محاورے یوں اگلی نسلوں تک بھی منتقل ہو سکیں گے۔