مظہر علی خان ممتاز پاکستانی صحافی تھے، ان کی زیر ادارت پاکستان ٹائمز نے ملکی صحافت میں اونچا مقام پایا۔ ایوب خان کی فوجی حکومت نے پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ پر قبضہ کیا تو انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔
پاکستان ٹائمز کے بعد ان کی ادارت میں ہفت روزہ ویو پوائنٹ نے 17 برس (1992-1975) صحافتی معیار اور حریت فکر کی بے نظیر مثال قائم کی۔
مظہر علی خان کے بڑے بیٹے طارق علی آکسفورڈ یونین کے صدر بن کر نامور ہوئے۔ اس کے بعد دانشور اور مصنف کی حیثیت سے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔
مظہر علی خان کی اہلیہ طاہرہ مظہر علی کی خواتین کے حقوق اور انسانی آزادیوں کے لیے جدوجہد ہماری تاریخ کا روشن باب ہے، اس پس منظر میں اگر لوگ مظہر علی خان کے چھوٹے بیٹے ماہر علی کو زیادہ نہیں جانتے تو اس میں ان کا کم، ماہر کے بڑوں کی روشنیٔ طبع کا دخل زیادہ ہے۔
ماہر علی نے والد اور بھائی کی طرح اپنا رشتہ قلم سے استوار کیا۔ ویو پوائنٹ سے صحافت شروع کی۔ فرنٹیئر پوسٹ اور ڈان سے وابستہ رہے، اور خلیج ٹائمز میں بھی کام کیا۔
ڈان اخبار میں ان کے کالم کا میں باقاعدہ قاری ہوں جس کا مجھے یہ فائدہ ہوا کہ شیخ مجیب الرحمان کے قتل کے دن کی مناسبت سے مضمون لکھنے کا ارادہ باندھا تو سب سے پہلے حسینہ واجد کے اقتدار سے بے دخل ہونے سے پہلے کی صورتحال پر ماہر علی کے کالم (24 جولائی) کی طرف دھیان گیا اور ساتھ ہی ویو پوائنٹ کے 49 سال پرانے شمارے کا خیال آیا۔
ماہر علی کے کالم اور ویو پوائنٹ پر بات سے پہلے زرا یہ جان لیتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمان کی یادداشتوں میں مظہر علی خان اور طاہرہ مظہر کا ذکر کس تقریب سے آیا ہے۔
1949 میں اپنے دورہ لاہور کے تذکرے میں مجیب نے لکھا:
’پاکستان ٹائمز کے مدیر اور معروف شاعر فیض احمد فیض اور ان کے رفیقِ کار مظہر صاحب کے ساتھ میرا تعارف ہوا، یہ دونوں حضرات صاحبِ علم، دانشور اور انتہائی ذہین تھے۔ میاں افتخار الدین کے ساتھ ساتھ یہ دونوں حضرات بھی اس بات کے حامی تھے کہ بنگلہ کو بھی پاکستان کی سرکاری زبان ہونا چاہیے‘۔
1952 میں چین میں امن کانفرنس میں پاکستانی وفد میں مجیب الرحمان اور طاہرہ مظہر شامل تھے، مجیب نے اپنی کتاب میں لکھا:
’میں نے محسوس کیاکہ جلسے میں سب سے اچھی تقریر طاہرہ مظہر نے کی تھی، پاکستانی وفد کی طرف سے تقریر کرنے والی وہ واحد خاتون تھیں، ان کی تقریر سے پاکستان کا تاثر مزید بہتر ہوگیا تھا‘۔
اب ماہر علی کے کالم پر بات کر لیتے ہیں، اس میں انہوں نے حسینہ واجد دور میں جبر کی اس روایت پر روشنی ڈالی جس میں مخالفین کو بری طرح کچلا گیا۔ وہ جیلوں میں گئے، جان سے گئے اور کئی غائب ہوئے۔
ماہر علی نے لکھا کہ حسینہ واجد 2009 کے بعد مسلسل اقتدار میں رہ کر بنگلا دیش کو یک جماعتی ملک بنانے کے اسی راستے پر چل رہی ہیں جو ان کے والد نے 1975 میں فوجی افسروں کے ہاتھوں قتل ہونے سے پہلے اپنے لیے منتخب کیا تھا۔
اب ماہر علی کے کالم سے مظہر علی خان کے ویو پوائنٹ کی طرف مڑتے ہیں جس کا پہلا شمارہ 14 اگست 1975 کو مجیب الرحمان کے قتل سے ایک دن پہلے منصہ شہود پر آیا۔ دوسرے شمارے میں شیخ مجیب الرحمان کے بارے میں مظہر علی خان کا اداریہ ’ڈھاکا ٹریجڈی‘ اور شیخ مجیب کے عروج و زوال پر تفصیلی مضمون بھی شامل تھا۔
مظہر علی خان نے اداریے میں لکھا کہ بنگلہ دیش کے الگ ملک بننے سے ’سونار بنگلہ‘ کا روایتی خواب حقیقت میں بدلا جو ساڑھے تین برس میں ہی ڈراؤنا خواب بن گیا۔ ان کا نقطہ نظر تھا کہ جنہوں نے جمہوریت کے نام پر اسلام آباد سے مارشل لا کے خلاف لڑائی لڑی تھی وہ اب اپنے بنائے ہوئے آئین کو مسخ کرنے کے راستے پر چل کر مارشل لا تک پہنچ گئے ہیں۔
مظہر علی خان کی دانست میں مجیب نے ابتری کے ہر مرحلے کا حل مزید طاقت کو اپنے ہاتھ میں لینے کو سمجھا، وہ اپنے ملک کو ایک واضح سمت دینے میں ناکام رہے۔
مظہر علی خان نے لکھا کہ صدارتی نظام اور یک جماعتی اقتدار کے بعد مجیب کے رشتے دار اور خوشامدی دوست سیاسی آقا اور کامیاب بزنس مین بن گئے۔
’ویو پوائنٹ‘ کے مذکورہ پرچے میں ’دی رائز اینڈ فال آف مجیب الرحمان‘ کے عنوان سے مضمون میں مجیب کے دور کا جائزہ لیا گیا ہے جس کے مطابق 8 جنوری 1972 کو لائل پور جیل سے رہائی سے لے کر 15 اگست 1975 تک بنگلہ دیش کے رہنما کی حیثیت سے شیخ مجیب الرحمان کا عہد مسلسل تناؤ سے عبارت رہا۔
مجیب الرحمان نے 28 دسمبر 1974 کو ایمرجنسی لگا دی، بنیادی حقوق معطل اور نظر بندی کے قوانین مزید سخت کردیے گئے۔ 25 جنوری کو آئین میں چوتھی ترمیم سے پارلیمانی نظام صدارتی نظام میں بدلا اور ملک میں یک جماعتی نظام رائج ہوگیا۔ شیخ مجیب الرحمان وزیراعظم سے صدر بن گئے، اور اسے دوسرے انقلاب کا نام دیا، مجیب نے کہاکہ فری اسٹائل جمہوریت ناکام ہوگئی ہے۔
کچھ اور وقت گزرا تو مجیب نے اپنی ناکامیوں کا بوجھ غریب جمہوریت پر ڈالا جس پر وہ یقین ہی نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے اصول ترک کردیے۔ مخالفین سے وہی سلوک کیا جو پہلے ان سے اور عوامی لیگ کے حامیوں سے ہوا تھا۔
حکمران کی حیثیت سے مجیب نے اپنے نظریات کیسے بدلے، اس کی ایک مثال دیکھیے۔
پاکستان میں لیاقت علی خان نے یک جماعتی نظام قائم کرنے کی ٹھانی تو انہیں اپنی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حسین شہید سہروردی نظر آئے۔ اس لیے انہوں نے سہروردی کو برا بھلا کہا، ہندوستانی ایجنٹ قرار دیا، ان کا لہجہ اس حد تک تلخ ہوا :
’سہروردی وہ کتا ہے جسے بھارت نے کھلا چھوڑ رکھا ہے‘۔
لیاقت علی خان کی اس گفتگو کا سہروردی اور مجیب الرحمان نے اپنی یادداشتوں میں حوالہ دیا ہے اور ان کی طرف سے ملک میں یک جماعتی نظام قائم کرنے کی کوششوں پر تنقید کی ہے، اس بارے میں شیخ مجیب الرحمان کا مؤقف تھا:
’لیاقت علی خان نے عوام کا نہیں بلکہ ایک پارٹی کا وزیراعظم بننا چاہا تھا، وہ یہ بھول گئے تھے کہ ملک اور ایک سیاسی پارٹی کو مساوی نہیں سمجھا جا سکتا۔ اگر قانون کی پاسداری کی جائے تو یہ بالکل فطری امر ہے کہ ایک جمہوری ریاست میں کئی سیاسی جماعتیں ہوسکتی ہیں۔ یہ بدقسمتی تھی کہ لیاقت علی خان اپنی پارٹی کے سوا پاکستان میں کسی اور پارٹی کا وجود برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ایک آمر ہی یہ بات کہہ سکتا تھا۔ ’جس نے بھی عوامی لیگ کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی کوشش کی میں اس کا سر توڑ دوں گا‘۔ جمہوریت پر یقین رکھنے والا کوئی بھی فرد یہ نہیں کہہ سکتا۔ جناح صاحب کے انتقال کے بعد لامحدود اختیارات کا مالک بن جانے کے احساس نے انہیں مدہوش کردیا تھا‘۔
لیاقت علی خان کے اس ناقد کو جب اقتدار ملا تو خود یک جماعتی نظام قائم کرکے دم لیا جس میں مخالفین کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔
اب آگے بڑھتے ہیں، مجیب الرحمان نے ایوب خان کی مخالفت کی، صدارتی الیکشن میں ایوب خان کے مقابلے میں فاطمہ جناح کا ساتھ دیا، یحییٰ خان کی آمریت سے بھی ٹھنی رہی لیکن یہ تو بعد میں کھلا ان کے اپنے اندر ایک ڈکٹیٹر چھپا ہوا تھا۔
اس حوالے سے ممتاز صحافی اوریانا فلاسی کے قلم سے مجیب کا خاکہ پڑھنے کے لائق ہے۔ اس میں انہوں نے مجیب کو مسولینی کے مشابہ قرار دیا ہے۔ اسی کی مانند خبط عظمت کا شکار، بس اس فرق کے ساتھ کہ مسولینی خود کو فاشسٹ تسلیم کرتا تھا اور مجیب نے خود کو آزادی، جمہوریت اور مساوات کے لبادے میں چھپا رکھا تھا۔
مارچ 1971 میں پاکستانی فوج نے بنگلہ دیش میں آپریشن کیا تو اس میں بنگالیوں کے ساتھ بڑا ظلم ہوا، اس پر ذوالفقار علی بھٹو کا بے رحمانہ بیان سامنے آیا:
’شکر ہے پاکستان بچ گیا‘
مجیب کے مینڈیٹ کا احترام نہیں ہوا، بہت غلط ہوا۔ بنگالیوں کے خلاف آپریشن اس سے غلط بات، لیکن اس سے مجیب نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ انہوں نے آزادی کے بعد ریاست کے شہریوں کو بلا تفریق امان دینے کے بجائے مکتی باہنی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور انسانی جانوں سے کھیلنے اور لوٹ مار پر ان سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا یا وہ اس پوزیشن میں ہی نہیں تھے۔ یہ بات بھی اوریانا فلاسی نے لکھی ہے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ صورت حال دیکھی تھی۔
ڈھاکا اسٹیڈیم میں مکتی باہنی نے قتل عام کیا، اس واقعے کے بارے میں اوریانا کے تیکھے سوالوں پر مجیب بوکھلا گئے، ان سے جواب نہیں بن پڑا۔
اوریانا کا مجیب سے ٹاکرا اس لیے اہم ہے کہ یہ بنگلہ دیش کے ابتدائی زمانے میں ہوا جس سے اس کے بانی کی ذہنی کیفیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔
مظہر علی خان، اوریانا فلاسی اور ماہر علی کا نقطہ نظر آپ نے جان لیا اب ایک لائن انگریزی کے نامور صحافی خالد احمد کی بھی پڑھ لیں:
’آزادی کے پہلے 3 سالوں میں شیخ مجیب کا دور جبر اور بدعنوانی کا دور تھا‘۔
ہم نے مجیب کے بارے میں ان صحافیوں کی رائے آپ کے سامنے پیش کی ہے جو ریاست کے روایتی بیانیے کے موید نہیں رہے۔
ممتاز صحافیوں کے بیانات سے ہم اب مڑتے ہیں لیفٹیننٹ کرنل (ر) شریف الحق دالیم کی کتاب کی طرف جس کا رانا اعجاز احمد نے ’پاکستان سے بنگلا دیش، ان کہی جدوجہد‘ کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔
مصنف پاکستان فوج سے وابستہ رہے، 1971 میں پاکستانی فوج کے علیحدگی پسند بنگالی افسروں کے گروپ کا حصہ بنے۔ مجیب نے 1974 میں انہیں فوج سے جبری ریٹائر کردیا تھا۔ مجیب دور کے بعد انہوں نے سفارت کار کی حیثیت سے مختلف ذمہ داریاں ادا کیں۔
ان کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے مجیب کا دور بنگالیوں کے لیے جبرِ مسلسل تھا۔ الیکشن کی بات ہی لے لیجیے۔ 1973 میں مجیب نے تمام جمہوری اصول پامال کرکے الیکشن جیتا۔ شریف الحق نے کتاب میں الیکشن میں دھاندلی کے متعلق مختلف بیانات نقل کیے ہیں۔ نمونے کے طور پر ایک بیان دیکھیے:
’9 مارچ کو مظفر احمد اور پنکج بھٹا چاریہ نے ایک مشترکہ بیان میں دعویٰ کیاکہ حکومتی جماعت کے کارکنوں نے بیلٹ باکس چرا لیے، پولنگ ایجنٹوں کو اغوا کیا، ووٹروں کو خوفزدہ کیا، ڈرایا دھمکایا اور جعلی ووٹوں سے بیلٹ باکسوں کو بھر دیا گیا۔ انہوں نے حکومتی ذرائع، مشنیری اور ٹرانسپورٹ کو بھی ناجائز طور پر اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ ان کی غیر جمہوری اور ناجائز کارروائیوں کے نتیجے میں انتخابات ایک معذرت کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھے‘۔
عدلیہ نے سیاسی قیدیوں کو رہا کیا تو اس کی خود مختاری صدارتی فرمان کے ذریعے سلب کرلی گئی۔ شریف الحق کے بقول ’عدلیہ بھی صدر کے ہاتھوں میں ایک مہرہ بن کررہ گئی‘۔
شیخ مجیب نے اقتدار میں رہ کر عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے ساری توانائیاں مخالفین کو کچلنے اور اپنی شخصیت کے ابھار میں صرف کردیں جس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ شریف الحق کے خیال میں آزادی سے پہلے کی تحریک میں شیخ مجیب الرحمان بنگالیوں کے ایک غیر متنازع اور محبوب رہنما تھے لیکن آزادی کے بعد وہ ایک ایسے آمر کی صورت میں سامنے آئے جن سے عوام شدید نفرت کرنے لگے تھے۔
اپوزیشن کو ملیا میٹ کرنے اور شفاف الیکشن سے انحراف کے نتیجے میں معاشرے میں مستقل عناد جنم لیتا ہے، جس سے غیر جمہوری قوتیں ہی فائدہ اٹھاتی ہیں، ان کی سپیس میں اضافہ ہوتا ہے۔
مجیب کے وہ ہم عصر حکمران جن سے ان کے سیاسی تعلقات رہے ان میں ذوالفقار علی بھٹو اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلے تو آئین بنا لیا۔ انڈیا سے مذاکرات کے لیے شملہ جانے کا مرحلہ آیا تو اپوزیشن رہنما انہیں ایئر پورٹ چھوڑنے گئے اور پھر ہم نے دیکھا جنگ ہارنے کے باوجود پاکستان نے شملہ معاہدے میں بہت کچھ حاصل کرلیا۔
لیکن جب بھٹو نے بلوچستان میں صوبائی حکومت ختم کی، وہاں آپریشن کیا، قوم پرست رہنماؤں پر حیدرآباد ٹربیونل بٹھایا، نیپ پر پابندی لگوائی اور متنازع الیکشن کروائے تو اس کے نتائج ملک کے حق میں نہیں گئے۔
بھٹو پاکستان میں یہ سب کررہے تھے تو اسی عرصے میں مجیب بنگلہ دیش میں فاشزم کی راہ پر چل رہے تھے، دونوں ہی فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔
جنوبی ایشیا کے 3 بڑے ملکوں کے لیے 1975 کے سال کو جمہوریت کش سال کہا جا سکتا ہے۔
انڈیا میں اسی سال اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کی۔ پریس، عدلیہ، سیاسی جماعتیں سب اس کے رگڑے میں آئے۔ لیکن اس کا انہیں سیاسی نقصان ہوا۔ 1977 کے الیکشن میں کانگریس کو شکست ہوئی اور رائے بریلی سے اندرا اپنی سیٹ بھاری مارجن سے ہار گئی تھیں۔ یہ ایمرجنسی کانگریس کے لیے آج بھی کلنک کا ٹیکا ہے جس پر اسے بی جے پی سے بھی طعنے سننے پڑتے ہیں۔
مجیب نے بنگلہ دیش میں یک جماعتی نظام نافذ کرکے دوسری سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کردی۔ پاکستان میں بھٹو حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کو کالعدم قرار دے کر اس کی سپریم کورٹ سے توثیق کروائی۔
مدعا یہ ہے کہ سویلین حکمرانوں کی حقیقی طاقت اختیار اپنی ذات میں جمع کرنے میں نہیں، اسے تقسیم کرنے میں پنہاں ہے۔ فاشزم کی راہ پر چلنے سے وہ اپنی منزل کھوٹی کرتے ہیں۔ اس سے ملک آگے نہیں پیچھے ہی جاتے ہیں۔ مجیب نے آئینی آمریت قائم کرکے کمایا کچھ نہیں البتہ گنوایا بہت کچھ، شیخ حسینہ واجد کا انجام آپ کے سامنے ہے۔