اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نئے توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے تفتیش میں عدم تعاون کے ساتھ اس کیس کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔ ان ریمارکس کے ساتھ عدالت نے کیس کی سماعت 21 اگست تک ملتوی کردی ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی نیب کال اپ نوٹس اور نئے توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے خلاف درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کی۔ سابق چیئرمین پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے وکیل سلمان صفدر اور نیب کے اسپیشل پراسیکیوٹر عمیر مجید اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی کیخلاف نیا توشہ خانہ کیس، اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب سے جواب طلب کرلیا
پراسیکیوٹر عمیر مجید نے عدالت کو بتایا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ نے بتایا کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے نیب پیشی سے انکار کردیا تھا، جس پر جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ قیدی کیسے تفتیش جوائن کرنے سے انکار کرسکتا ہے، کیا نیب تمام 26 دن کے ریمانڈ میں اڈیالہ جیل تفتیش کے لیے جاتا رہا۔ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ وارنٹ گرفتاری 13 جولائی کو نہیں بلکہ پہلے جاری ہوئے، جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیب گرفتار نہ کرتا تو وہ جیل سے باہر آ جاتے۔
’عدالت آج ہی گرفتاری کو غیرقانونی قرار دے سکتی ہے‘
عدالت نے ریمارکس دیے کہ نیب کے کئی کال اپ نوٹسز تو ایسے ہیں جن پر ہم نے گرفتاری سے روکا ہے۔ جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ نیب کا پہلا کال اپ نوٹس تو درست نہیں، دوسرا ہمیں دکھا دیں، نیب کے مبہم کال اپ نوٹس پر گرفتاری کا جواز کیسے پیش کریں گے، یہ عدالت آج ہی گرفتاری کو غیرقانونی قرار دے سکتی ہے۔ عدالت نے سوال کیا کہ کیا نیب طلبی کے نوٹسز کے علاوہ کیس سے متعلق کوئی معلومات نہیں تھیں، نیب کی جانب سے کیا ایک کال اپ نوٹس جاری کیا گیا تھا۔
نیب پراسیکیوٹر نے جواب میں کہا کہ نیب نے دوسرا کال اپ نوٹس بھی جاری کیا جسے چیلنج نہیں کیا گیا۔ ؟ جسٹس گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے سیکریٹری کابینہ کو نوٹس جاری کیا ہے، سیکریٹری کابینہ تحائف کا کسٹوڈین ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: توشہ خانہ ریفرنس میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے جسمانی ریمانڈ میں 10 دن کی توسیع
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ سربراہ مملکت یا کسی اور کو بیرون ملک سے تحائف ملتے ہیں، اگر کوئی تحائف جمع نہیں کراتا تو سیکریٹری کابینہ نے اقدامات کرنے ہیں، اگر کوئی تحائف لے کر جاتا ہے تو وہ مرکزی ملزم تو بن ہی نہیں سکتا، کیا سیکریٹری کابینہ کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں، نیب نے سیکریٹری کابینہ کو مرکزی ملزم کیوں نہیں بنایا، کیا نیب نے سیکریٹری کابینہ کے کردار کا تعین کیا ہے، نیب کو بلغاری سیٹ کے تحفے سے متعلق کب معلوم ہوا، نیب نے پہلے ایک تحفے کو الگ کرکے کیس بنایا۔
’آئندہ تاریخ پر کیس کو فکس کریں گے‘
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ دیگر تحائف سے متعلق نیب کی تفتیش مکمل نہیں ہوئی تھی۔ جسٹس گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ نیب نے کیس میں ریفرنس دائر کیوں نہیں کیا، نیب ایک ماہ مزید تاخیر کر دے پھر بھی معاملے کو دیکھنا ہے، نیب کہہ دے کہ انہوں نے سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کا تحفظ کرنا ہے، کیا نیب نے کیس میں دیگر ملزمان سے تفتیش مکمل کرلی ہے، ہم آئندہ تاریخ پر کیس کو فکس کریں گے، نیب تفتیشی افسر آج یا کل اڈیالہ جیل جا کر سوالنامے کے جواب لیں۔
یہ بھی پڑھیں: توشہ خانہ نیا ریفرنس: عمران خان اور بشریٰ بی بی کا 8 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ قید ملزم کا تفتیش جوائن نہ کرنا حیران کن بات ہے۔ نیب پراسیکیوٹر بولے کہ ملزم سابق وزیراعظم ہے، جس پر جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ ملزم کے سابق وزیراعظم ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ جب تک میڈیا نہیں آتا کارروائی نہیں ہوگی، جس پر جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ بانی پی ٹی آئی نے ایسا کہا تھا تو یہ جج کی ناکامی تھی۔ جسٹس گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ تفتیش میں عدم تعاون پر کیس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ بعد ازاں، عدالت نے کیس کی سماعت 21 اگست تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے یکم اگست کو عمران خان اور اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی توشہ خانہ کے نئے کیس میں ممکنہ گرفتاری سے متعلقہ کیس میں نیب کو نوٹس جاری کرکے 8 اگست تک جواب طلب کیا تھا۔