لوگ شیخ مجیب الرحمان کے ‘نقوش کہن’ کیوں مٹا رہے ہیں؟

جمعہ 16 اگست 2024
author image

عبیداللہ عابد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بنگلہ دیش میں بپا ہونے والی حالیہ طلبہ تحریک کے دوران اور بعد میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جو بہت سوں کے لیے حیران کن ہیں۔ اگرچہ یہ واقعات اب ایک عام فرد کی نظر میں کچھ پرانے ہوچکے ہیں لیکن بنگلہ دیش سمیت جنوبی ایشیا کے دیگر تمام معاشروں میں بیٹھے تجزیہ کاروں اور پالیسی سازوں کے لیے تازہ ترین ہی ہیں۔ اردگرد کے حکمران خوف بھی محسوس کرتے ہیں لیکن پھر اپنے آپ کو خود ہی تسلی دیتے ہیں کہ ابھی ہمارے ہاں حالات بنگلہ دیش کی نہج پر نہیں پہنچے۔ بہت دور نہ جائیں، پاکستان ہی کے بعض وزرا کے گزشتہ  دنوں کے بیانات پڑھ لیجیے۔ ویسے بنگلہ دیش میں رونما ہونے والے واقعات کو دیکھ کر یہ وزرا بھی حیران ہیں۔

کیا کوئی تین ماہ پہلے تک سوچ سکتا تھا کہ بنگلہ دیش کی ‘خاتونِ آہن’ شیخ حسینہ واجد جلد ہی ایک صبح خوف اور دہشت سے کانپتی ہوئی فوجی ہیلی کاپٹر پر بیٹھیں گی، اپنے دوست ہمسائیہ ملک میں پہنچ کر کہیں گی کہ جان بچی سو لاکھوں پائے۔

ممکن ہو تو آپ بھی حسینہ واجد کے ‘گنابھبن'( وزیراعظم ہاؤس) میں آخری چند لمحات دیکھ لیجیے۔ ان کے چہرے پر  مختلف کیفیات  آ رہی تھیں اور جا رہی تھیں۔ وہاں خوف بھی تھا، اور وہ روہانسی بھی تھیں کہ ابھی سات، آٹھ ماہ قبل ہی تو وہ 350 نشستوں کے ایوان میں 224 سیٹیں لے کر جیتی تھیں، اب اچانک یہ کیا ہوگیا۔ ایک ویڈیو کلپ میں دیکھا کہ ایوان اقتدار سے نکلتے ہوئے شیخ حسینہ کی آنکھوں میں آنسو بھی تھے جنھیں زبردستی روکا گیا تھا۔

 ایوان اقتدار سے نکلنے بھاگنے کے ان لمحات میں شیخ حسینہ کی بہن ان سے گلے ملتی ہیں اور خوب روتی ہیں۔ حسینہ واجد بہن کو رونے سے منع نہیں کر سکتیں کیونکہ وہ شدت جذبات سے ایک حرف بھی منہ سے نکالنے سے قاصر تھیں۔ اسی اثنا میں محافظوں نے انھیں کہا ‘اب آپ کا یہاں ایک لمحہ رکنا بھی مناسب نہیں، ہم نے انتظام کردیا ہے، بیک یارڈ سے آپ کو اٹھا لیا جائے گا اور بھارت کی حدود میں پہنچادیا جائے گا۔’

شیخ حسینہ واجد وزیراعظم ہاؤس کے بیک یارڈ سے اس لیے اٹھائی گئیں کہ  ایوان وزیراعظم کے مرکزی دروازے سے مظاہرین کا ایک سمندر اندر داخل ہوچکا تھا۔ وزیر اعظم نے کوشش کی کہ  وہ جاتے جاتے ٹی وی پر قوم سے خطاب کرلیں لیکن فوجی محافظوں نے کہا کہ اس کا وقت نہیں ہے۔ آپ جلدی سے استعفیٰ نامہ پر دستخط کریں اور بیک یارڈ کی طرف سے نکل جائیں۔

جب وہ ‘گنابھبن’کے عقبی راستے سے بیک یارڈ کی طرف جا رہی تھیں تو وہ محافظوں اور دیگر لوگوں سے کچھ کہہ رہی تھیں، کیا کہہ رہی تھیں، کچھ اندازہ نہیں ہوسکا۔ کیونکہ دور سے بنائی جانے والی ویڈیوز میں ان کی آواز ریکارڈ نہیں ہوسکی۔ ممکن ہے کہ وہاں موجود کوئی شخص کسی روز انکشاف کردے کہ وہ جاتے جاتے کیا کہہ رہی تھیں۔

یہ وہی شیخ حسینہ واجد تھیں جو چند روز پہلے تک تصور نہیں کر سکتی تھیں کہ انھیں استعفیٰ دینا ہوگا۔ وہ کوٹہ سسٹم کے خلاف سڑکوں پر نکلنے والے طلبا و طالبات کو کچل ڈالنے کے احکامات جاری کرتی رہیں۔نتیجتاً ایک ہزار سے زائد طلبا و طالبات ہلاک، 20ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ ان میں بچے بھی شامل تھے۔ 12ہزار سے زائد طلبہ و طالبات کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا لیکن کوٹہ سسٹم کے خلاف تحریک تھمنے کے بجائے بڑھتی اور پھیلتی چلی گئی اور پھر ‘عدم تعاون تحریک’ میں بدلی اور پھر اس نے وزیراعظم کا استعفیٰ لے کر ہی سکون کا پہلا سانس لیا۔

ممکن ہے کہ آج شیخ حسینہ بھارتی دارالحکومت دہلی کے قریب کمین گاہ میں بیٹھی سوچ رہی ہوں کہ کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبا و طالبات کا مطالبہ مان لیتی تو اچھا ہوتا۔

اس کہانی میں دنیا بھر کے حکمرانوں کے لیے سبق ہے کہ اپنے مخالفین کے ہاتھ پاؤں چاہے جتنے بھی سختی سے باندھ لیے جائیں، انھیں فنا کے گھاٹ اترنا ہی ہوتا ہے۔ بقا کا ایک ہی راستہ ہے کہ عوام کے ساتھ ناتا مضبوط کیا جائے، اور انصاف سے کام لیا جائے۔

شیخ حسینہ کی دو بڑی سیاسی مخالف قوتیں تھیں، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی۔ دونوں جماعتوں کی قیادت اور کارکنان کو بدترین ریاستی جبر کا نشانہ بنا کر، پھانسیوں پر چڑھا کر، جیلوں میں ٹھونس کر شیخ حسینہ سمجھ رہی تھیں کہ اب کوئی ان کے خلاف کُسک نہیں سکتا۔ انھوں نے پوری منصوبہ بندی سے فوج کے افسر طبقہ میں اپنی پارٹی’ عوامی لیگ’ کے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو شامل کیا۔ سپریم کورٹ سمیت تمام عدالتوں میں اپنی پارٹی کے لوگوں کو ججز کے طور پر لگایا۔ بیوروکریسی میں بھی عوامی لیگ کے کارکن ہی ہر طرف نظر آتے تھے۔

یہ سب کچھ اسی کوٹہ سسٹم کے طفیل ہوا جس کے خلاف بالآخر طلبہ  نے تحریک شروع کی۔ اور جس کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں 30 فیصد ملازمتیں 1971 کی’ جنگ آزادی’ لڑنے والوں کی اولادوں کے لیے وقف تھیں، بہ الفاظ دیگر حکمران عوامی لیگ کے کارکنان کے لیے۔ اسی 30فیصد کوٹے کی ‘برکت’ سے بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی ڈکٹیٹرشپ قائم ہوچکی تھی۔ خواتین بخوبی جانتی ہیں کہ پریشر ککر  میں بھاپ نکالنے والا سوراخ بند ہوجائے تو ککر دھماکے سے پھٹتا ہے، اور خوب تباہی مچاتا ہے۔ یہ بات شیخ حسینہ خاتون ہوکر بھی بھول گئیں۔

گزشتہ دنوں بنگلہ دیش میں سب سے حیران کن منظر یہ دیکھا گیا کہ پورے بنگلہ دیش سے چن چن کر ‘بنگلہ بدھو’ (بابائے قوم) شیخ مجیب الرحمن کے مجسمے توڑ پھوڑ دیے گئے، ان کی تصاویر اتار کر پھینک دی گئیں، جو اتاری نہ جاسکیں، انھیں پوری قوت کے ساتھ کُھرچ دیا گیا۔ اب آپ کو پورے ملک اور بیرون ملک بنگلہ دیشی سفارت خانوں میں شیخ مجیب الرحمان کی کوئی تصویر آویزاں نہیں نظر آئے گی۔

ناہید اسلام سمیت طلبہ تحریک کے رہنما عبوری حکومت میں شامل ہیں اور فوج، عدلیہ سمیت ہر جگہ سے شیخ مجیب الرحمان کے نام لیواؤں کو نکال باہر کر رہے ہیں۔ تازہ ترین اقدام یہ کہ 15اگست کی عام تعطیل( یوم غم) ختم کردی گئی۔ اس روز شیخ مجیب الرحمان کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی تھی جس میں وہ اپنے سارے اہل خانہ سمیت( سوائے بیٹی حسینہ کے) قتل کردئیے گئے تھے۔

شیخ حسینہ سے لوگوں کی بے زاری بلکہ نفرت قابلِ فہم ہے، سوال یہ ہے کہ لوگ شیخ مجیب الرحمان کے ‘نقوش کہن’ کیوں مٹا رہے ہیں؟ بنگلہ دیش تو انہی کی جدوجہد سے قائم ہوا تھا، وہاں کے لوگوں کو ان کا تادم آخر شکرگزار رہنا چاہیے تھا۔

اس سوال کا ایک ہی جواب سمجھ میں آتا ہے کہ لوگوں کو وہ بنگلہ دیش قبول نہیں جہاں بھارت کا عمل دخل بہت زیادہ ہے اور بنگلہ دیشیوں کی قدروقیمت کم۔ بدقسمتی سے شیخ مجیب الرحمان نے بھارت کی مکمل مدد سے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کی صورت دی تھی، بعدازاں ان کی بیٹی شیخ حسینہ نے1996 سے 2001 تک اور پھر 2009 سے 2024 تک، اپنے ادوار اقتدار میں ملک میں بھارتی اثرورسوخ کو مسلسل بڑھایا۔ حتیٰ کہ بہت سے معاملات میں انھوں نے بنگلہ دیش کا سر نیچا کیا اور بھارت کا سر اونچا۔

آپ جب اپنے ملک کے عوام کی پرواہ نہیں کریں گے، انھیں اہمیت نہیں دیں گے بلکہ غیروں کے مفادات کا تحفظ کریں گے تو پھر یہی ہوگا جو ہوچکا ہے۔

بھارت کے مفادات پورے کرنے کے چکر میں بنگلہ دیش میں کیا صورت حال پیدا ہوئی؟ ‘انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ’ نے گزشتہ برس اگست میں بنگلہ دیشی رائے عامہ کا ایک جائزہ لیا جس کے مطابق ملک کے عوام کی اکثریت معاشی صورت حال کو مزید خراب ہوتے دیکھ رہی تھی۔

مثلاً ایک خاتون کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر کی تنخواہ نہیں بڑھتی لیکن اشیائے ضروریہ کی قیمتیں روزانہ بڑھتی ہیں۔’ اس تناظر میں ہم اپنے بال بچے پالنے میں مشکلات محسوس کر رہے ہیں۔’ ایک دوسری خاتون نے توجہ دلائی کہ یہاں ماسٹر ڈگری رکھنے والے سائیکل رکشہ کھینچنے پر مجبور ہیں۔

دوسری طرف ملک میں صرف 26فیصد ایسے لوگ بھی تھے جن کا خیال تھا کہ معاشی مشکلات دور ہوجائیں گی۔ وہ شیخ حسینہ کے دور میں ہونے والی ترقی کی طرف اشارہ کرتے تھے کہ سڑکیں بنیں، پرانی سڑکیں تعمیر ہوئیں،پدما پل سمیت بہت سے پل بنے، میٹرو ریل چلی۔

اسی جائزے میں بتایا گیا تھا کہ ملک میں 45فیصد افراد ملکی سیاست کے بارے میں کوئی بات کہنے میں خوف محسوس کر رہے تھے۔ کھلنا کی رہائشی ایک خاتون نے کہا’ اگر میں نے ملکی سیاست کے بارے میں کچھ بات کی تو مجھے خوف ہے، میں قتل کردی جاؤں گی۔’

اس جائزے میں 36فیصد افراد نے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن بتایا۔ ہر 10میں سے آٹھ نے بتایا کہ سیاسی اشرافیہ اور عام بنگلہ دیشی میں بہت زیادہ فرق پیدا ہوچکا ہے۔ 62فیصد لوگ سول سوسائٹی کے بارے میں بھی منفی خیالات رکھتے ہیں کہ وہ اشرافیہ کے مفادات کی حفاظت کا کام کرتی ہیں۔ ایک تہائی لوگ چاہتے تھے کہ ملک میں نئی جماعتیں قائم ہوں۔ گویا وہ بے بسی محسوس کر رہے تھے کہ اپوزیشن جماعتوں کو شکنجے میں کس دیا گیا ہے، وہ اس شکنجے سے نکل نہیں پا رہیں، اس لیے نئی قوتوں کو ابھرنا چاہیے۔

اور پھر نئی قوت طلبا و طالبات کی صورت میں سامنے آگئی۔ یہ طلبا اس قدر بالغ نظر اور پختہ فکر ہیں کہ انھوں نے حسینہ واجد کی رخصتی کے بعد ریاستی معاملات پر فوج کا قبضہ نہ ہونے دیا، ایک ایک کرکے اپنے تمام مطالبات اپنے دیے گئے ٹائم فریم میں پورے کرواتے گئے۔ پارلیمان کی تحلیل، ڈاکٹر محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت کا قیام وغیرہ۔ وہ فوج میں بھی صفائی کر رہے ہیں، عدلیہ اور پولیس میں بھی۔

بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا، اس سے دنیا کے ہر حکمران کو سبق حاصل کرنا چاہیے، اپنے معاشرے کے حالات کا جائزہ لینا چاہیے۔ محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ پاکستان کے حالات بنگلہ دیش جیسے نہیں۔

پوری دیانت داری اور غیر جانبداری سے ایک جائزہ لینے کی ضرورت ہے، حسینہ واجد کے خلاف انقلاب کے بعد کتنے پاکستانیوں نے اسلام آباد کی طرف دیکھ کر ایک ٹھنڈی آہ بھری؟

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر کہیں صورت حال بنگلہ دیش جیسی بن چکی ہو، اس کے بعد بھی وہاں کا حکمران زندہ بچ جائے تو اسے ہر نئی صبح ہونے پر شکر ادا کرنا چاہیے۔ ایسے میں بہتر تو یہ ہے کہ وہ بُرا دن طلوع ہونے سے پہلے حالات بہتر کرلے ورنہ بری حکمرانی کے نتیجے میں بُرے دن کو آنا ہی ہوتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp