امان اللہ کی جگت

ہفتہ 17 اگست 2024
author image

حماد حسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عہد ساز کامیڈین امان اللہ سے جب ایک ٹیلی وژن شو میں کہا گیا کہ امریکا کہتا ہے، ہم پاکستان کو مزید امداد نہیں دیں گے، تو امان اللہ نے برجستہ کہا کہ ان سے کہہ دو اگر امداد نہیں دوگے تو ہم گلیوں میں مونیکا لیوانسکی (بل کلنٹن کی گرل فرینڈ) کی باتیں کریں گے۔

یہ مزاح کے غلاف میں لپٹی وہ تلخ حقیقت ہے جو ہمارے مجموعی قومی رویے سے عیاں ہے یعنی عملیت کی بجائے جذباتیت اور حقیقت کی بجائے مبالغہ۔

لیکن پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ رویہ کیسے اور کیوں کر بنا؟

پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی ہم ایک پرآشوب اور بے سمت سفر کا آغاز کرتے ہیں، پرآشوب اس حوالے سے کہ نوزائیدہ ملک اور لاکھوں مہاجرین کی آمد اور صرف ایک سال بعد قائداعظم کی وفات، لیاقت علی خان کا قتل اور غلام محمد کے ہاتھوں منتخب جمہوری اداروں پر پہلا وار۔

یہی وہ صورتحال تھی جس نے اس نئے ملک کی بنیادوں میں انتظامی بدحواسی، لیڈر شپ کافقدان اور جمہوری اداروں کی کمزوری کا بیج بویا، بے سمت سفر اس حوالے سے کہ جمہوریت ابھی سیاسی جلاد غلام محمد اور جسٹس منیر جیسے کرداروں سے نپٹ رہی تھی کہ ایوب خان اعلان کرتا ہے کہ یہ ملک جمہوریت کے لیے نہیں بلکہ مارشل لاؤں کے لیے بنا ہے جس کے بطن سے بعد میں ایبڈو، بنیادی جمہوریت اور 1964ء کے صدارتی الیکشن جیسے عجوبے برآمد ہوتے ہیں اور پھر اس کے بعد تو چل سو چل والا معاملہ چل پڑتا ہے۔

جب آپ اس ‘معاملے ‘ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تو قدم قدم پر ایبڈو چوہدری خلیق الزمان، فاطمہ جناح کی شکست، مکتی باہنی، بنگلہ دیش، بھٹو کی پھانسی، اسلامی نظام کا نفاذ، غیر جماعتی الیکشن، جونیجو لیگ، آئی جے آئی، معین قریشی، 12اکتوبر، اٹک قلعہ اور جلاوطنی، ق لیگ ڈیویلویشن پلان، پی ٹی آئی، پانامہ اور شیخ رشید جیسے عجوبے دیکھ کر آپ خود بخود سمجھ جاتے ہیں کہ ہمارے قومی رویے کو عجوبہ بنانے میں کون سے حالات اور عوامل کار فرما تھے، لیکن ٹھریے معاملے تک پہنچتے پہنچتے آپ کو ایوب کتا ہائے ہائے، یحیٰ خان، ڈھاکا فال، سندھو دیش، ایم آر ڈی، شاہی قلعہ، افتخار چوہدری، 12 مئی، الطاف حسین اور عمران خان جیسے مقامات آہ و فغان بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

وہ جوکہا جاتا ہے کہ غلطی کبھی بانجھ نہیں ہوتی تو یہاں بھی اول الذکر نے موخر الذکر کو جنم دیا لیکن ہمیں سب سے پہلے اول الذکر یعنی آمریت کے دور کے اقدامات کا جائزہ لینا ہوگا۔

آج ایبڈو کا بدنام زمانہ قانون کس سیاستدان کو سیاسی عمل میں حصہ لینے سے روک سکتا ہے؟

چوہدری خلیق الزمان کی سیاسی وراثت کون سی ہے؟

کنونشن مسلم لیگ کہاں ہے اور فاطمہ جناح کی عزت میں کتنی کمی آئی ہے؟

کیا بھٹو کی پھانسی کے بعد بھی پیپلزپارٹی تین بار اقتدار میں نہیں آئی؟

جنرل ضیا کا اسلامی نظام پاکستان کے کس حصے میں نافذ ہے؟

جونیجو لیگ، آئی جے آئی، ق لیگ ڈیویلویشن پلان اور معین قریشی آج کل کہاں پائے جاتے ہیں، 12اکتوبر کا شکار دوبارہ ملک کا منتخب وزیراعظم نہیں بنا؟

کیا آج بھی اس کی جماعت برسر اقتدار نہیں ہے؟

آمریت کا پروردہ شیخ رشید ٹولہ اپنے جیسے ٹی وی چینلز پر بھی سیاسی نوحہ خوانی اور عوام کے لیے مزاح کا ذریعہ نہیں بنے؟

لیکن جب ہم دوسرے حوالے یعنی ردعمل میں ابھرنے والے عوامل کو دیکھتے ہیں تو وہاں نتائج مثبت بھی ہیں اور دیرپا بھی۔

مثلاً ایوبی آمریت کے خلاف تحریک نے نوجوان طبقے کو سیاسی دھارے کا حصہ بنایا۔ کیا وڈیرہ شاہی کے مقابلے میں نوجوان طبقہ منظر پر نہیں اُبھرا؟ اسٹیبلشمنٹ کے جبر نے ڈھاکا فال اور یحیٰ خان جیسے خوفناک حادثے تو جنم دئیے لیکن حقوق کی پامالی اور سیاسی جبر کو ہمیشہ کے لیے خطرے کا نشان بھی بنادیا۔

اسی طرح یہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں لہولہان پیپلزپارٹی ہی تھی جس نے میدان میں سندھودیش کے مقابلے میں وفاقیت کا نہ صرف علم بلند کیا بلکہ سندھو دیش کادم خم بھی نکال کر رکھ دیا اور فیڈریشن کو ناسازگار منطقوں سے کمک فراہم کی۔ ایم آر ڈی تحریک شاہی قلعے کی صعوبتوں، افتخار چوہدری کی ‘نہ‘ اور 12مئی نہ صرف قانون کی بالادستی اور جمہوری بقاء کے ضامن بنے بلکہ انہوں نے رائے عامہ کو مستقل طور پر ہموار اور بیدار بھی کردیا، ساتھ ساتھ آمریت کے مستقبل پر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی لگا دیا اور پھر آمریتوں کے پروردہ الطاف حسین کا کارنامہ اور اس کا انجام جب وہ نئی فضاء کا ادراک کرنے میں ناکام ہوگیا اور سیاسی طاقت اس کے ہاتھ سے پھسل گئی۔

اور پھر آتے ہیں اس سب سے خونچکاں عشرے کی طرف جسے ہائبرڈ رجیم کا نام ملا لیکن اس سے معاشی تباہی، تہذیبی شرمندگی، ریاستی جبر اور سیاسی خجالت کے ساتھ ساتھ عمران خان، پی ٹی آئی، فیض حمید، مظاہر نقوی، ثاقب نثار، 9 مئی اور نسل نو کی بربادی کے علاوہ برآمد ہی کیا ہوا۔

تبھی تو ہائبرڈ رجیم کے معمار خود اپنے کیے پر نہ صرف شرمندہ ہیں بلکہ اس شرمندگی کے ہر پل، ہر کردار اور ہر عمل کو نہ صرف ڈس اون کرتے اور اکھاڑتے جا رہے ہیں بلکہ تعمیر سے ازالے کی کوششیں بھی کر رہے ہیں۔

یہی پچھتاوا  ہی ہے کہ  کسی کی اہمیت، کردار، ڈلیوری اور حب الوطنی کے معیار پر ہی پرکھا جانے لگا ہے !

یہی وہ ایک دوسرے سے جڑے لیکن متضاد سیاسی عوامل ہیں جو قومی سوچ اور رویے میں جذباتیت کی فراوانی اور پختگی کے فقدان کا ذریعہ بن کر اسے یکسوئی اورعملیت پسندی سے دور لے جاتے رہے۔

 کیونکہ جب ایک قوم کو اس کی فطری روانی اور اعتماد کے فطری سفر سے بار بار محروم کیا جائے اور اس کے اردگرد خالی خولی نعروں اور بانجھ موسموں کی دیواریں کھڑی کی جائیں تو اس کے پاس اور رہ کیا جاتا ہے،

سوائے ناکامیاں اگلنے کے!

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp