سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ زیر التوا مقدمات کا بوجھ کم کرنے کی ضرورت ہے، بزنس سیکٹر کے لوگ مصحالتی فورم سے رجوع کریں۔ سنگاپور میں کو آپریٹ سیکٹر کے مسائل ثالثی فورم پر ہی حل ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:کسی کے پاس اختیارنہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل نہ کرے، جسٹس منصور علی شاہ
کراچی میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جسٹسس منصور علی شاہ نے کہا کہ تنازعات کے متبادل حل (اے ڈی آر) کا استعمال کر کے بزنس کمیونٹی اور ملک کو نقصان سے بچایا جا سکتا ہے، بلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹوو (بی آر آئی) ایک اچھا موقع ہے جس کے تحت ملک میں سرمایہ کاری آ سکتی ہے، آج ہمیں معیشت پر سب سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمپنیاں ایکسپرٹ ثالث رکھیں، اس طرح عدالت آنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، عدالتوں پر زیر التوا مقدمات کا بڑا بوجھ ہے اس وقت بھی ملک میں 4 لاکھ سے زیادہ مقدمات التوا کا شکار ہیں، اس لیے بزنس سیکٹر کے لوگوں کو پہلے مصالحتی فورم سے رجوع کرنا چاہیے۔
مزید پڑھیں:22 لاکھ مقدمات زیرالتوا ہونے کی وجہ فضول مقدمے بازی ہے، جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمیں کسی اور نظام پر انحصار کرنے کے بجائے موجودہ نظام کو بہتر کرنا ہو گا، جوڈیشل سسٹم میں بہتری کے لیے کام کے آغاز پر خوشی ہوئی ہے، عدالتوں سے رجوع کرنے سے پہلے ثالثی کی کوشش کرنے سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم ہو اور لوگوں کے مسائل بھی جلد حل ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ دور ٹیکنا لوجی کا دور ہے ہیمں بھی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا چاہیے اور خود کو اس کا عادی بنانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اے ڈی آر کو استعمال کر کے بزنس کو نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔ گلوبل پارٹنر اور ایگریمنٹ کے ذریعے بھی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اقلیتوں کے حقوق کے لیے ریاست مدینہ سے بڑھ کر کوئی مثال نہیں دی جا سکتی، جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ نے بلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹوو ( بی آر آئی ) کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ترقی، سرمایہ کاری اور کاروبار کو بہتر بنانے کے لیے یہ ایک اچھا موقع ہے، چین کے ساتھ ہمارے معاہدے ہوئے ہیں، چین کسی بھی سرمایہ کاری معاہدے میں تاخیر پسند نہیں کرتا، اس لیے ہمیں وقت کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔چین پاکستان کا دوست ہے اور وہ یہاں باہمی کاروباری مواقع دینا چاہتا ہے۔