طویل خاموشی کے بعد سابق وزیراعظم و صدر پاکستان مسلم لیگ ن نواز شریف ایک بار پر منظرعام پر آئے، نواز شریف نے اپنی صاحبزادی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ساتھ بیٹھ کر (ایک ریکارڈ کردہ گفتگو میں) اعلان کیاکہ پنجاب حکومت بجلی صارفین کو بڑا ریلیف دینے جارہی ہے۔ انہوں نے اس پر اپنی بیٹی مریم کو شاباش دیتے ہوئے اپنے بھائی وزیراعظم شہباز شریف کو بھی بجلی سستی کرنے کا مشورہ دیا۔
نوازشریف کہنے لگے کہ وہ آج بھی پوچھتے ہیں کہ انہیں کیوں نکالا؟ گفتگو میں ان کا فوکس ماضی کی سیاست تھا، ان کی جماعت اور ملک کی سیاست موجودہ اور آنے والے دور میں کس طرف جارہی ہے اس پر کوئی بات نہیں کی۔ ملکی مسائل کیسے حل کیے جائیں؟ معیشت کس حال میں ہے؟ سیاسی جماعتوں کو کس قدر محدود کردیا گیا ہے؟ شخصی آزادیاں کس طرح تیزی سے ختم ہورہی ہیں؟ اسٹیبلشمنٹ کا ملکی معاملات میں عمل دخل کس قدر بڑھ چکا ہے؟ ملک میں بڑھتی دہشتگردی اور ہمسایوں سے تعلقات جیسے مسائل پر نواز شریف خاموش ہیں۔
نواز شریف کے قریبی ساتھی کہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم پی ڈی ایم حکومت اور نہ ہی فروری 8 کے الیکشن کے بعد وفاقی حکومت بنانے کے حق میں تھے۔ پارٹی نے انہیں پاکستان واپس بلایا اور اگلے وزیراعظم کے طور پر الیکشن مہم چلائی تاکہ پارٹی کی گرتی ہوئی مقبولیت کو کچھ حد تک سہارا دیا جا سکے۔ نواز شریف نے بھی بے دلی سے انتخابی جلسوں میں اپنے ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کوشش کی، مگر نتائج مایوس کن رہے۔
لندن سے واپسی کے بعد نواز شریف زیادہ تر خاموش رہے مگر جب بھی بولے تو ماضی میں اٹکے نظر آئے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ نواز شریف کی خاموشی بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ پاکستان کے سینیئر ترین سیاستدان ہونے کے ناطے انہیں اس وقت خاموش نہیں رہنا چاہیے، جب سے وہ پاکستان واپس آئے ہیں انہوں نے اپنی مصروفیات کو انتہائی محدود کردیا ہے، کسی سے ملاقات بھی نہیں کرتے۔
ایک سینئیر صحافی جنہیں ان کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے کہتے ہیں کہ لندن سے واپس آنے کے بعد لاہور میں رہتے ہوئے ان کی نواز شریف سے کوئی ملاقات نہیں ہوسکی۔ حال ہی میں پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی چند روز کے لیے لاہور میں قیام پذیر تھے۔ ایک نجی محفل میں محمود اچکزئی کہتے ہیں کہ وہ نوازشریف کے بہت قریب رہے اور وہ ان کی بہت عزت کرتے ہیں۔ مگر وہ حیران تھے کہ نواز شریف کسی سے ملنے کے لیے تیار نہیں۔ انہوں نے یہ بھی شکوہ کیاکہ سب جانتے ہیں کہ وہ لاہور میں ہیں مگر نوازشریف کی بیٹی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بھی ملاقات کی خواہش نہیں کی۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ ’مریم مجھے ایک چائے کی پیالی پر ہی بلا لیتی‘۔
عمران خان نے محمود اچکزئی کو ٹاسک دیا ہے کہ وہ سیاستدانوں سے بات چیت کریں اور ملک کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے میں مدد کریں۔ محمود اچکزئی سمجھتے ہیں کہ ملک اس وقت سنگین ترین مسائل کا شکار ہے اور ایسے میں قومی یکجہتی کی شدید ضرورت ہے۔ انہوں نے قومی حکومت بنانے کی تجویز دی اور کہاکہ تمام جماعتیں چارٹر پر دستخط کریں اور عہد کریں کہ مینڈیٹ کا احترام اور برداشت کو فروغ دیں گے۔
نواز شریف سمجھتے ہیں کہ انہوں نے خاموشی اختیار کرکے اپنے تمام معاملات اللہ پر چھوڑ دیے ہیں۔ مگر ناقدین کا خیال ہے کہ نوازشریف اور دیگر سیاستدانوں کی خاموشی یا اسٹیبلشمنٹ کی حمایت نے ملک میں سیاسی اسپیس ختم کرکے رکھ دی ہے جس کا خمیازہ عوام اگلی کئی دہائیوں تک بھگتتے رہیں گے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کی پی ڈی ایم میں شمولیت اور 8 فروری کے متنازع الیکشن کے نتیجے میں حکومت سنبھالنے کا سب سے زیادہ نقصان بھی کسی اور کو نہیں بلکہ نواز شریف کی اپنی جماعت کو پہنچ رہا ہے۔ پنجاب میں 30 سال سے زیادہ عرصے تک اقتدار میں رہنے والی مسلم لیگ نواز آج اپنے ہی صوبے میں شدید مشکلات کا شکار ہے۔