گزشتہ چند ہفتوں سے پاکستان بھر میں ہر دوسرا شخص یہ شکایت کر رہا ہے کہ انٹرنیٹ نہیں چل رہا، سوشل میڈیا ایپ تک رسائی مشکل ہو رہی ہے اور اگر رسائی مل بھی جائے تو انٹرنیٹ کی سست روی کے باعث تصاویر، دستاویزات اور ویڈیوز اپ لوڈ اور ڈاؤن لوڈ نہیں ہو رہیں۔
ملک میں انٹرنیٹ کی سست روی سے انفرادی نقصان تو ہو ہی رہا ہے، مگر اس کا پاکستان کی مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزنگ کمپنیوں کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سے ان کمپنیوں کا معاشی نقصان تو ہو ہی رہا ہے لیکن ملک کی معیشت پر بھی انتہائی منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔
ملک میں انٹرنیٹ کی سست روی کے حوالے سے وی نیوز نے آن لائن کام کرنے والے چند پاکستانی برانڈز سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ انٹرنیٹ کی سست روی اور سوشل میڈیا ایپس کی بندش کے باعث انہیں روزانہ کی بنیاد پر کتنا نقصان ہو رہا ہے۔
پاکستان میں کاسمیٹک برانڈ ’مس روز ‘ کمپنی کے ڈسٹری بیوٹر اور سیلر نعمان چوہدری نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا سارا کام آن لائن ہوتا ہے اور وہ سوشل میڈیا ایپلیکیشنز جیسے انسٹاگرام، ٹک ٹاک، فیس بک کے ذریعے ہی سب سے زیادہ سیل کرتے ہیں لیکن جب سے انٹرنیٹ کی رفتار اور سوشل میڈیا ایپس کی بندش ہوئی ہے، ان کی سیل میں تقریباً 80 فیصد کی کمی آ چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صرف یہی نہیں بلکہ وہ پیسے جو وہ سوشل میڈیا ایپس پر اپنے اشتہار کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے انوسٹ کرتے ہیں، وہ نقصان الگ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’بہت سے لوگ مہینے بھر کے لیے 20 یا 25 لاکھکی ایڈ کاسٹ کو ایک ہی بار لگا دیتے ہیں اور اگر اتنے پیسے لگانے کے فوراً بعد انٹرنیٹ کا مسئلہ درپیش آجائے تو خود سوچیں کہ اتنی بڑی رقم تو پھر ضائع ہی ہو گی، ایک کاروباری شخص کے لیے یہ بہت بڑا نقصان ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ انٹرنیٹ کی سست رفتار یا ایپس کی بندش یا پھر کوئی بھی انٹرنیٹ سے منسلک مسئلہ ہوتا ہے تو ہمارے اشتہارات کنزیومرز تک نہیں پہنچ پاتے، جس کی وجہ سے سیلز فوراً گر جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہماری 1 دن کی ایڈ کاسٹ 1 لاکھ روپے ہے اور اگر میں صبح یہ ایڈ کلاسٹ لگا دیتا ہوں اور کچھ گھنٹوں بعد انٹرنیٹ کا مسئلہ پیدا ہو جائے تو پھر سمجھیں کہ میرے یہ سارے پیسے ضائع ہو گئے، میری کوئی سیل نہیں ہوئی، الٹا پیسے بھی ضائع اور باقی جتنے بھی آفس کے ملازم ہیں ان کے اخراجات اور تنخواہوں کی ادائیگی الگ ہے۔ یوں لاکھوں کا نقصان ایک دن میں برداشت کرنا پڑتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو سوچنا چاہیے کے ملک میں کاروباری طبقہ انٹرنیٹ جیسے مسائل سے شدید متاثر ہو رہا ہے اور خاص طور پر وہ افراد جن کا روزگار ہی آن لائن چلتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت ہم سے ایڈ کاسٹ کی مد میں ٹیکس بھی وصول کرتی ہے، اگر میں 1 دن میں 1 لاکھ کے ایڈ لگا رہا ہوں، تو اس پر میں حکومت کو 28 ہزار روپے ٹیکس بھی دے رہا ہوتا ہوں۔ اس کے باوجود بھی اگر یہ صورتحال ہو تو ملک میں کاروبار کو کیسے فروغ ملے گا، حکومت ملک میں ٹیکنالوجی کی بہت باتیں کرتی ہے، ایک انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ان سے برداشت نہیں ہورہا‘۔
سوشل میڈیا ایپس کی مارکیٹنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ’روز پیٹل‘ برانڈ کے مارکیٹنگ اینڈ سیلز مینیجر سہیل سردار نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا ایپس کی بندش ہو یا پھر انٹرنیٹ کی سست رفتار، ہمیں نقصان ضرور ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں بھاری بھرکم ٹیکسز کے بعد جب سوشل میڈیا ایپس کی بندش اور کبھی انٹرنیٹ کی عدم دستیابی سیلز پر بہت زیادہ اثر انداز ہو رہی ہوتی ہے۔
اس وقت ملک میں یہ ایک روایت بنتی جا رہی ہے، جہاں 6 مہینے میں بلفرض 10 ہزار نئے کنزیومر شامل ہو رہے ہوتے ہیں تو وہاں اس صورتحال میں 1 ہزار بھی بمشکل شامل ہوتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کمپنی سوشل میڈیا مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزنگ پر خرچ بھی رہی ہو اور 1 مہینے میں اس کی اس مد میں انوسٹمنٹ پوری بھی نہ ہو تو بھی قابل برداشت ہے لیکن ہر دوسرے دن اس طرح کی صورتحال سے برانڈز کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور سیلز معمول کی سیلز سے نصف ہو جاتی ہے۔
پاکستانی فوڈ برانڈ چیزیس کے مارکیٹنگ لیڈ محمد جبران کا سوشل میڈیا مارکیٹنگ اور سوشل میڈیا ایپس کی بندش کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سوشل میڈیا ایپس کی بندش کی وجہ سے کسی بھی برانڈ کی مارکیٹنگ پر یقینی طور پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔
کیونکہ سوشل میڈیا اشتہارات کے ذریعے کوئی بھی پراڈکٹ اور اس سے متعلق تفصیلات بڑی تعداد میں کنزیومر تک پہنچتی ہیں، جس کا فائدہ انہیں سیل کی مد میں ہوتا ہے، برانڈز کے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ سوشل میڈیا اشتہارات پر اچھا خاصا پیسہ لگاتے ہیں لیکن جب انٹرنیٹ جیسی سہولت ہی میسر نہ ہو تو آپ کیسے اپنی سیل کر سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’خاص طور پر چھوٹے برانڈز جنہوں نے مارکیٹ میں ابھی ابھی قدم رکھا ہو، اس وقت وہ سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اور اس طرح کے بے شمار برانڈز ہیں جو ان مسائل کی وجہ سے شروع ہوتے ہی بند ہو جاتے ہیں‘۔