برطانیہ میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے فسادات شدت اختیار کر گیے ہیں اور مختلف شہروں میں مساجد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کے بعد برطانیہ میں مقیم 75 فیصد مسلمانوں کو عدم تحفظ کا خوف لاحق ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:برطانیہ میں فسادات کے الزام میں متعدد انتہاپسندوں کو سزائیں، گرفتاریوں کا سلسلہ جاری
مسلم ویمن نیٹ ورک کے ایک سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانیہ میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے فسادات کے بعد 3 چوتھائی مسلمان اپنی حفاظت کے بارے میں خوفزدہ ہیں۔
پر تشدد فسادات سے پہلے، صرف 16 فیصد جواب دہندگان نے خود کو غیر محفوظ قرار دیا تھا جس سے مسلم کمیونٹی کے اندر تشویش میں مزید نمایاں اضافہ ہوا۔
برطانیہ میں بدامنی 30 جولائی کو ساؤتھ پورٹ کے ایک یوتھ کلب میں چاقو کے حملے کے بعد شروع ہوئی تھی، جس میں 3 نوجوان لڑکیاں ہلاک اور متعدد دیگر زخمی ہو گئیں تھیں۔ سوشل میڈیا پر غلط معلومات تیزی سے پھیل گئیں اور اس حملے کو کسی مسلمان یا پناہ گزین سے منسوب کیا گیا۔
مزید پڑھیں:نمازیوں سمیت مساجد شہید کرنے کی خواہش نے خاتون ’کی بورڈ واریئر‘ کو لمبی جیل کروادی
بعد ازاں مبینہ حملہ آور کی شناخت 17 سالہ ایکسل روڈکوبانا کے طور پر کی گئی جو کارڈف کے علاقے میں پیدا ہونے والا ایک نوجوان تھا۔
رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں فسادات شدت اختیار کر گئے ہیں اور مختلف شہروں میں مساجد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
لیورپول کی عبداللہ کوئلیم مسجد میں 2 مسلم خواتین نے برطانوی ٹیلی ویژن کے ساتھ ایک انٹرویو میں اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ 26 سالہ ایک طالبہ لیلا تمیا نے کمیونٹی کی جانب سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ فسادات کی صورت میں تقریباً یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ پولیس ہماری حفاظت نہیں کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ میں سوشل میڈیا پر نفرت اور تشدد کو ہوا دینے کے الزام میں 3 افراد گرفتار
انہوں نے بتایا کہ اس صورت حال میں یہ بہت اہم تھا کہ نہ صرف مسلم کمیونٹی کی جانب سے یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے بلکہ غیر مسلم برادری کے بہت سے لوگ بھی جمعے کو مسجد کی حفاظت کے لیے یہاں پہنچ گئے تھے۔
مسلم ویمن نیٹ ورک کی سی ای او بیرونس شائستہ گوہر نے برطانوی ٹیلی ویژن کو بتایا کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ ہوا ہے اور موجودہ حکمت عملی پرانی ہے۔
انہوں نے نفرت پر مبنی جرائم سے متعلق سخت قانون سازی پر زور دیا جس میں ’دشمنی‘ کی واضح تعریف ہو۔ گوہر نے اس بات پر زور دیا کہ اس مسئلے کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے خاص طور پر مسلم خواتین کے ذریعہ نفرت پر مبنی جرائم کی مزید اطلاع دینے کی ضرورت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے سب سے زیادہ پریشان کرنے والی بات یہ ہے کہ جب خواتین فون کر کے کہتی ہیں کہ ’ہمارے ساتھ اس وقت بدسلوکی کی گئی جب ہم اپنے بچوں کے ساتھ تھیں‘۔