حکومتوں کی توجہ صرف کرکٹ پر، ایتھلیٹکس والے پائی پائی کو ترستے ہیں، بابائے اسپورٹس عطا محمد کاکڑ

پیر 19 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پیرس اولمپکس 2024 میں پاکستانی جیولین کھلاڑی ارشد ندیم نے 92.97 تھرو پھینک کر پاکستان کو طلائی تمغہ دلوایا، جس کے بعد ارشد ندیم کی فتح کا ڈنکا پورے ملک میں بجنے لگا۔ ارشد ندیم کی شاندار کامیابی پر وزیراعظم پاکستان اور صوبائی وزرائے اعلیٰ نے کروڑوں روپے کے انعامات ان پر نچھاور کر دیے۔

ارشد ندیم کی جیت کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا جس میں شعبہ کھیل سے تعلق رکھنے والے مختلف کھلاڑیوں کا موقف ہے کہ ملک میں تب ہی ایتھلیٹکس کو اہمیت دی جاتی ہے جب کوئی ہیرو اس میں طلائی تمغہ حاصل کرلیتا ہے جبکہ کرکٹ پر مکمل طور پر توجہ دی جاتی ہے اور کھلاڑیوں کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں ارشد ندیم پر انعامات کی برسات جاری، گورنر پنجاب نے تحفے میں کیا کچھ دیا؟

’حکومت نے کبھی پوچھا تک نہیں کہ کس حال میں ہو‘

اس سلسلے میں وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بابائے اسپورٹس عطا محمد کاکڑ نے کہاکہ میں نے پاکستان کو 4 دہائیوں تک ایتھلیٹکس کے شعبے میں اپنی خدمات دیں، ملک کو سینکڑوں عالمین دیے جنہوں نے عالمی سطح پر پاکستان کا جھنڈا بلند کیا اس کے علاوہ کامن ویلتھ اور ساؤتھ ایشن گیمز میں بھی میرے شاگرد بڑی تعداد میں بہترین کارکردگی دکھا چکے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ میری خدمات کے اعتراف میں حکومت کی جانب سے مجھے بابائے اسپورٹس کا خطاب تو دیا گیا لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے مجھے کبھی پوچھا بھی نہیں گیا کہ کس حال میں ہو، آج صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ 4 دہائیوں تک کھیل کے شعبے میں اپنی خدمات انجام دینے کے باوجود علاج اپنی جیب سے کرانے پر مجبور ہوں۔

عطا کاکڑ نے کہاکہ ہمیں اولمپکس میں سونے کا تمغہ حاصل کرنے میں 40 سال لگ گئے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کرکٹ جیسے کھیل کے لیے سالانہ اربوں روپے کا بجٹ مختص کیا جاتا ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ایتھلیٹکس کے لیے سالانہ ایک لاکھ روپے گرانٹ کے طور پر رکھے جاتے ہیں۔

ایک لاکھ روپے میں ایک کھلاڑی کو تیار کرنا کیسے ممکن ہے؟

انہوں نے کہاکہ مہنگائی کے اس دور میں ایک لاکھ روپے میں ایک کھلاڑی کو کیسے تیار کرنا ممکن ہے، حکومتی عدم توجہ کی وجہ سے کھیل کا شعبہ تنزلی کی جانب گامزن ہے۔

عطا محمد کاکڑ نے کہاکہ حال ہی میں اولمپکس میں بہترین کارکردگی دکھانے والے ارشد ندیم نے بھی اپنی مدد آپ کے تحت تمام تر اخراجات کیے اور محنت کر کے طلائی تمغہ حاصل کیا جس کے بعد اس کو حکومت کی جانب سے اب پذیرائی دی جارہی ہے۔

عطا کاکڑ نے مزید کہاکہ بلوچستان میں کھیلوں کے میدان ہی موجود نہیں، اگر نوجوان کھیلوں کی جانب متوجہ نہیں ہوں گے تو دہشتگردی اور منشیات ان کا مقدر بن جائے گی۔

’اولمپکس ایسوی ایشنز میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کا کھیلوں سے کوئی تعلق ہی نہیں‘

انہوں نے کہاکہ ہمارے ہاں اولمپکس ایسوسی ایشنز میں ایسے لوگ کام کررہے ہیں جن کا کھیلوں سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں اور حکومتی اخراجات پر یہ دیگر ممالک گھوم پھر کر واپس آ جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں پی سی بی کا خواتین کرکٹرز کو پہلی مرتبہ ڈومیسٹک کنٹریکٹس دینے کا فیصلہ

انہوں نے کہاکہ ان تمام تر وجوہات کی وجہ سے پاکستان عالمی کھیلوں میں کوئی میڈل نہیں لا پاتا، تاہم اگر حکومت کو عالمی سطح پر کھیلوں میں تمغے حاصل کرنے ہیں تو ایسی پالیسیاں بنانی ہوں گی جس سے کھلاڑی کو فائدہ ہوسکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp