پچھلے ایک ہفتے سے پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر صرف اور صرف جنرل فیض حمید کی گرفتاری اور ان کے کورٹ مارشل کا ہی تذکرہ ہے۔ ہونا بھی چاہیے، یہ شاید اس سال کی پاکستان کی سب سے بڑی خبر ہے۔ گوکہ ماضی میں بھی پاکستان آرمی کے کئی جرنیلوں اور افسران کے کورٹ مارشل ہوئے ہیں لیکن ان کو ایک سرسری سی ہیڈ لائن سے زیادہ جگہ کبھی بھی میڈیا پر نہیں ملی۔ تو پھر ایسا کیا ہے جنرل فیض حمید کی گرفتاری اور کورٹ مارشل میں کہ اب تک لگاتار دن رات صبح شام میڈیا پر صرف جنرل فیض حمید ہی چھایا ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کا کوئی نتیجہ بھی نکلے گا یا نہیں؟ کیا ان کو آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی پر کوئی سزا بھی ملے گی؟ کیا جنرل فیض حمید کا انجام بھی جنرل ضیا الدین بٹ جیسا ہوگا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج کل ہر پاکستانی شہری لوگوں سے پوچھتا ہے اور ان کے جوابات ٹی وی چینلز، یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر تلاش کررہا ہوتا ہے۔
سب سے پہلے اس بات کا یا سوال کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعی جنرل فیض حمید اور جنرل ضیاالدین بٹ کا معاملہ ایک جیسا ہی ہے؟ جنرل ضیاالدین بٹ کو نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں اس وقت چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا جب جنرل پرویز مشرف سری لنکا کے دورے پر تھے۔ پرویز مشرف نے اپنے کچھ ساتھی کورکمانڈرز کی مدد سے نواز شریف کا تختہ الٹتے ہوئے نہ صرف مارشل لا لگایا بلکہ جنرل ضیاالدین بٹ کو بھی گرفتار کروایا۔ جنرل ضیا الدین بٹ کو 690 دن قید تنہائی (solitary confinement ) میں گزارنے پڑے۔ آج کے دن تک جنرل ضیا الدین بٹ کی ریٹائرمنٹ کا حکم نامہ نہ ایوان صدر، نہ وزیراعظم اور نہ ہی وزارت دفاع کے ریکارڈ سے ملا۔ جنرل ضیاء الدین کو آرمی سے ملنے والی تمام مراعات اور جائیدادیں ضبط کر لی گئیں اور ایک میجر کے سادہ کاغذ پر حکم نامے کے ذریعے یہ بتایا گیا کہ he stands retired.
جنرل ضیاالدین کو ایک منتخب وزیراعظم نے آرمی چیف تعینات کیا تھا لیکن اس کے باوجود ان کو اس بات پر سزا دی گئی کہ انہوں نے اپنی کمانڈ کے خلاف جاتے ہوئے یہ تقرری قبول کی۔ ذرا سوچیں جنرل فیض حمید کے اوپر جس طرح کے الزامات لگائے گئے ہیں کہ وہ آرمی چیف کے خلاف بغاوت کی سازش میں مبینہ طور پر ملوث رہے اور آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے مطابق وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے تو ان کو کیسی سخت سزا مل سکتی ہے۔ اگر کورٹ مارشل میں اس قدر سنجیدہ الزامات ثابت ہوگئے تو انہیں کڑی سزا مل سکتی ہے۔
ایک تاثر یہ عام ہے کہ جنرل فیض حمید فوج کے اندر بہت پاپولر تھے اور ان کے چاہنے والے اب بھی اداروں کے اندر موجود ہیں اس لیے ان کو اتنی سخت سزا ملنے کا امکان کچھ کم ہی ہے۔ لیکن ان کی گرفتاری کے دوسری دن جو فوج کی موجودہ قیادت کی طرف سے پیغام دیا گیا وہ اہم ہے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ریٹائرڈ فوجی افسران کے اعزاز میں جو اعشائیہ دیا جس میں سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل راحیل شریف اور دیگر آرمی افسران نے شرکت کرکے اس تاثر کو بھی زائل کردیا کہ فوجی قیادت کے اندر کوئی اختلافات ہیں۔ اس پیغام سے رہی سہی قیاس آرائیاں بھی ختم ہوگئیں، یوں جنرل عاصم منیر مزید بااختیار سربراہ بن کر ابھرے ہیں۔
ماضی میں آرمی افسران کے کورٹ مارشلز کی تاریخ کو کھنگالا جائے تو یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اتنے اثر و رسوخ والے کسی جنرل چاہے وہ ریٹائرڈ ہی کیوں نہ ہوچکا ہو، پر تب تک ہاتھ نہیں ڈالا جاتا جب تک ان کے خلاف ناقابل تردید شواہد نہ ہوں۔ اب تک کی میڈیا پر رپورٹ ہونے والی خبروں اور آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جنرل فیض حمید کے خلاف کارروائی بھی ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر کی گئی ہے جس کے بعد ان کا کورٹ مارشل سے بچ نکلنا مشکل نظر آتا ہے۔
لوگ اکثر یہ سوال بھی پوچھتے ہیں کہ کیا جنرل فیض حمید نے تن تنہا یہ کام کیا ہے یا اس سارے معاملے میں عمران خان بھی ملوث تھے؟ اور کیا ان کے خلاف بھی شریک ملزم کے طور پر کوئی کارروائی ہوسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب تو خود عمران خان کئی مرتبہ اڈیالہ جیل میں میڈیا سے گفتگو میں دے چکے ہیں کہ ان کو خدشہ ہے، جنرل فیض حمید کے خلاف یہ کارروائی دراصل اس لیے کی جا رہی ہے تاکہ اس کو وعدہ معاف گواہ بنا کر ان (عمران خان) کے خلاف ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلایا جاسکے۔
عمران خان چاہے کچھ بھی کہیں لیکن اگر کوئی اس طرح کے ثبوت سامنے آئے تو ان کے خلاف بھی کارروائی ملٹری کورٹ میں بطور abetter چلائے جانے کا امکان موجود ہے۔ تاہم عمران خان کے پاس سویلین عدالت میں بھی اپیل کا اسی طرح حق ہوگا جس طرح کورٹ مارشل کیے گئے باقی ملزمان کے پاس ہوتا ہے۔ اس لیے اگر ایسی کوئی کارروائی کی گئی اور عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بے قصور ہیں تو عدالتوں سے ان کو فوری ریلیف مل جائے گا۔
جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل، ان کی گرفتاری اور ان کے سہولت کاروں کے حوالے سے خبریں آنے کے بعد بہر حال فوج ک طرف سے باقی اداروں کو یہ پیغام پہنچ چکا ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملے کے ملزمان کے لیے کوئی رحم کی جگہ نہیں، چاہے وہ ملزمان فوج کے اندر سے ہوں یا باہر سے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ باقی اداروں کی طرف سے جنرل فیض کے معاملے کے بعد کیا رسپانس آتا ہے۔