افغانستان میں طالبان حکومت نے ماہ رمضان میں افغان خواتین کے ریڈیو اسٹیشن کو ‘موسیقی بجانے’ پر بند کر دیا۔
صدائے بانوان‘ نامی ریڈیو اسٹیشن کو افغان خواتین چلا رہی تھیں، یہ ریڈیو اسٹیشن 10 سال قبل شروع ہوا تھا جس میں 6 خواتین سمیت 8 افراد کام کر رہے تھے ۔’
افغانستان کےصوبہ بدخشاں کی اطلاعات و ثقافت کے ڈائریکٹر معیز الدین احمدی نے کہا ہے کہ ریڈیو اسٹیشن ’صدائے بانوان‘ نے رمضان المبارک کے دوران گانے اور موسیقی نشر کرکے ’امارت اسلامیہ کے قوانین و ضوابط‘ کی متعدد بار خلاف ورزی کی اور خلاف ورزی کی وجہ سے اسے بند کر دیا گیا ہے۔
معیز الدین احمدی کہتے ہیں ’اگر یہ ریڈیو سٹیشن امارت اسلامیہ افغانستان کی پالیسی کو قبول کرتا ہے اور اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ دوبارہ ایسا کام نہیں کرے گا تو ہم اسے دوبارہ کام کرنے کی اجازت دیں گے۔‘
اس حوالے سے ریڈیو اسٹیشن کی سربراہ ناجیہ سوروش نے امارت اسلامیہ افغانستان کی کسی پالیسی کی خلاف ورزی کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ’ریڈیو اسٹیشن کی بندش کی کوئی ضرورت نہیں تھی، طالبان نے ہمیں بتایا کہ آپ نے موسیقی نشر کی ہے۔ ہم نے کسی بھی قسم کی موسیقی نشر نہیں کی ہے‘۔
دوسری جانب یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ افغان آزاد صحافیوں کی ایسوسی ایشن کے مطابق اگست 2021 میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد بہت سے صحافی اپنی ملازمتوں سے محروم ہوگئے جبکہ فنڈز کی کمی یا ان کے عملے کے ملک چھوڑنے کی وجہ سے کئی میڈیا ادارے بند ہو گئے۔
طالبان کی پالیسیوں کی تعمیل کرنے سے انکار کرنے والے مقامی افغان صحافیوں کو گرفتار کر لیا گیا جن میں سے کچھ رہائی کے بعد بدسلوکی اور تشدد کی شکایت کر رہے ہیں۔
افغان طالبان نے خواتین کو یونیورسٹی سمیت چھٹی جماعت سے آگے ملازمت اور تعلیم سے روک دیا ہے تاہم طالبان کی جانب سے موسیقی پر کوئی باقاعدہ پابندی نہیں ہے۔
اس سے قبل 1990 کی دہائی میں بھی، اپنی سابقہ حکومت کے دوران طالبان نے ملک میں زیادہ تر ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اخبارات پر پابندی لگا دی تھی۔