پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان جاری پنڈیٹیسٹ میچ کا آج تیسرا دن ہے۔ پاکستانی ٹیم کم از کم دو ماہ بعد ایکشن میں دکھائی دے رہی ہے جبکہ قومی ٹیم تقریباً چھ مہینوں بعد کوئی بھی ٹیسٹ میچ کھیل رہی ہے۔ پنڈی سٹیڈیم میں تماشائیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی وجہ شاید بارش اور گرمی یا پھر ورکنگ ڈے ہو سکتا ہے لیکن اگر کچھ عرصہ پیچھے دیکھا جائے تو یہی پنڈی سٹیڈیم ٹیسٹ میچوں کے دوران ہاؤس فُل ہوتا تھا اور ٹیسٹ کے پانچوں دن تماشائی بڑی تعداد میں آتے تھے۔
مجھے پتہ نہیں کیوں کل سے محسوس ہو رہا ہے یعنی وہ کہتے ہیں نہ کہ فیل آ رہی ہے کہ کرکٹ عوام کے دلوں سے اتر رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ جون میں کھیلے گئے آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی ‘شاندار’ کارکردگی ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے پچھلے تین سالوں میں تین ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ، دو ایشیا کپ اور ایک ون ڈے ورلڈ کپ میں عوام کو ایسا مایوس کیا کہ اب عوام نے پرواہ کرنا چھوڑ دی ہے۔ کل میں نے میچ سے پہلے ایک ڈائی ہارڈ کرکٹ فین دوست کو میسج کیا کہ میچ دیکھو گے؟ تو اس کا صرف یہی جواب آیا کہ “نہیں۔ ”
شائقین کا ایسا عجیب دل ٹوٹا ہے کہ جڑنے کا نام نہیں لے رہا۔ میں آج اپنا ایکس اکاؤنٹ دیکھ رہا تھا۔ یقین کریں میری ٹائم لائن پر ایک ٹویٹ بھی پاکستان اور بنگلہ دیش کے میچ کے متعلق نہیں تھی۔ یہ بات آج سے چار پانچ سال پہلے سوچی بھی نہیں جا سکتی تھی۔
عوام شاید کرکٹ میں مسلسل مایوسی کے باعث اکتاہٹ کا شکار ہیں۔ اسی طرح اب سب کو یہ شعور بھی آنا شروع ہوگیا ہے کہ کرکٹ کے بجائے دوسرے کھیلوں کو فروغ دیا جائے۔ اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں پاکستانی ٹیم کی عمدہ کارکردگی اور پھر پیرس اولمپکس میں ارشد ندیم کی جانب سے تاریخ رقم کرنے کے بعد کرکٹ کے علاوہ دوسرے کھیلوں کو نئی زندگی مل گئی ہے۔ عوام سراپا احتجاج ہیں کہ بھئی کرکٹرز کو ملنے والی سہولیات دوسری کھیلوں کے کھلاڑیوں کو بھی دی جائیں کیونکہ دوسرے کھیلوں میں کم از کم پاکستان کچھ جیت تو جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کرکٹ عالمی سطح پر زوال کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے پیچھے بہت زیادہ کرکٹ ہونے، پھر فرنچائز کرکٹ اور آئی سی سی کی ناقص پلاننگ اور گیم ڈیولپمنٹ کا ہاتھ ہے۔ اب ہر سال ایک آئی سی سی ٹورنامنٹ ہو رہا ہے۔ پچھلے تین برسوں میں چار ورلڈ کپ ہو چکے ہیں جبکہ ہر گزرتے سال کے ساتھ فرنچائز کرکٹ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔
انٹرنیشنل کرکٹ سمٹ کر صرف تین ٹیموں کا کھیل بنتی جا رہی ہے۔ باقی ٹیموں کو نہ زیادہ میچ ملتے ہیں اور نہ ہی وہ ٹیمیں زیادہ مضبوط ہیں۔ اگر تینوں فارمیٹس کی بات کی جائے تو سب سے زیادہ زوال ون ڈے کرکٹ کو ہے۔ ون ڈے کے باہمی مقابلے کسی کی بھی دلچسپی کا باعث نہیں رہے اور نہ ہی ان کا کوئی مقصد رہا ہے۔ جیتنے والی ٹیم کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچتا اور ہارنے والی ٹیم کو زیادہ نقصان نہیں پہنچتا۔ اسی طرح اب کوئی یاد بھی نہیں رکھتا کہ فلاں میچ میں کیا ہوا تھا۔ رہی بات فرنچائز کرکٹ کی تو وہاں بنیادی مقصد پیسہ ہے۔ ہر سال ٹورنامنٹ ہونے کی وجہ سے اب مداحوں کے بھی دل نہیں ٹوٹتے کیونکہ سال بعد وہ ٹورنامنٹ دوبارہ آ جائے گا۔ فینز تو فینز، اب تو کرکٹرز کو بھی ون ڈے اور ٹیسٹ کھیلنے سے زیادہ دلچسپی نہیں رہی۔ اس کی مثال نیوزی لینڈ کی ٹیم ہے جس کے کئی کھلاڑی بورڈ کا سینٹرل کنٹریکٹ لینے سے انکار کر چکے ہیں تاکہ وہ اپنی مرضی سے لیگز کھیل سکیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ کرکٹ ایک عظیم کھیل ہوا کرتا تھا مگر بہت زیادہ کمرشلائزیشن، آئی سی سی کی غیر منصفانہ تقسیم اور غیر معیاری گیم ڈیولپمنٹ نے اسے زوال کے سفر پر ڈال دیا ہے۔ اب تو ہم جیسے کرکٹ دیوانوں کی بھی یہ حالت ہے کہ اگر ٹیم جیت جائے تو خوشی ہوتی ہے اور اگر ہار جائے تو دکھ نہیں ہوتا۔