آئین کے لیے ہم عمران خان کیساتھ ہاتھ ملانے کو تیار ہیں، شاہد خاقان عباسی

جمعہ 23 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ انہوں نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے کہنے پر پاکستان کے نیوز چینلز بند نہیں کیے تھے، انہوں نے کہا کہ شاید ان کی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے خود سے چینلز بند کرنے کی ہدایت دی ہو کیونکہ یہ معاملہ ان کے سامنے آیا ہی نہیں مگر اس کے باوجود وہ بطور وزیراعظم اپنے دور کے کاموں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔

وی نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں ’عوام پاکستان‘ کے بانی رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ان کی جنرل فیض حمید سے پہلی ملاقات عمران خان کے دور میں آرمی چیف جنرل باجوہ کے گھر ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جنرل فیض کی گرفتاری، مزید لوگ بھی پکڑے جائیں گے، عطاتارڑ

ان سے پوچھا گیا کہ سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کہتے ہیں کہ اس وقت کے ڈی جی سی جنرل فیض نے ان سے کہا تھا کہ یا 92 چینل کھول دیں یا سب چینل بند کریں۔ ابصار عالم کے انکار پر وزیراعظم سے کہلوا کر سب چینل بند کروا دیے گئے۔ اس سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ان کی جنرل فیض سے بطور وزیراعظم ایک بھی ملاقات نہیں ہوئی۔ نہ جنرل فیض نے اس معاملے میں ان سے کوئی بات کی، نہ ہی ابصار عالم صاحب نے کبھی بات کی۔

ان کا کہنا تھا ’جو چینل بند ہوئے مجھے حقیقتاً یاد نہیں مگر چلیں مان لیتا ہوں کہ چینل بند ہوئے، اگر ہوئے تھے تو پھر میری وزیر یعنی مریم اونگزیب نے خود یہ ہدایت دی ہوگی۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ معاملہ مجھ سے کبھی ڈسکس ہوا ہو۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ بہرحال اگر یہ فیصلہ ہوا تو میں بطور وزیراعظم اس کا ذمہ دار ہوں ،مجھ پر تنقید کرسکتے ہیں۔

جب فیض حمید نے شاہد خاقان کو اپنی گاڑی میں لفٹ دی

شاہد خاقان عباسی نے بتایا کہ جنرل فیض حمید سے ان کی پہلی ملاقات نومبر 2018 میں اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے گھر ہوئی تھی جب عمران خان وزیراعظم تھے۔

‘اس وقت جنرل باجوہ نے مجھے خواجہ آصف اور مفتاح اسماعیل کو دعوت دی تھی کہ معیشت کے موضوع پر ہمیں رائے دیں۔ ہم نے میاں نواز شریف سے اجازت لے کر ان سے ملاقات کی تھی۔ وہاں جنرل فیض مجھے گھر سے لے جانے خود آئے تھے۔

اس کے بعد پارلیمان میں ایک بل کے وقت جب جنرل فیض ڈی جی آئی ایس آئی تھے اس وقت ملاقات ہوئی تھی۔’

ان کا کہنا تھا کہ جنرل فیض ڈی جی سی رہے اور ڈی جی آئی ایس آئی رہے۔ جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب ریکارٖڈ پر ہوگا۔ فوج میں ماتحت افسر ہمیشہ ہدایت لے کر کام کرتا ہے تاہم اگر خود سے کچھ کیا ہے تو وہ اس کے ذمہ دار ہیں۔

’اگر آپ قانون توڑیں تو آپ قصوروار ہیں جواب دینا ہوگا‘

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جنرل فیض حمید کا اوپن ٹرائل فوج کا فیصلہ ہے۔ کورٹ مارشل عموماً اوپن نہیں ہوتے۔ اکثر کورٹ مارشل ہونے والے افسران کے نام بھی نہیں آتے لیکن یہ فوج کا اپنا نظام ہے۔

آپ کی حکومت میں اسٹیبلشمنٹ کی کتنی چلتی تھی؟

جب شاہد خاقان عباسی سے پوچھا گیا کہ ان کے دورِ حکومت میں کیا سب کچھ آئین کے مطابق ہورہا تھا؟ ان کا کہنا تھا ’جی بالکل۔ میں نے کوئی عمل بھی آئین سے ہٹ کر نہیں کیا۔ آئینی ترمیم بھی ہوئی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ اپنا کام کرتی رہی۔‘

سابق وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ اس زمانے میں آئین سے ماورا باتیں ہوتی رہیں۔ یہاں فیض آباد دھرنا ہوا، بلوچستان کی حکومت غائب ہوگئی، سینیٹ کا الیکشن چوری ہوا، چیئرمین سینیٹ کا الیکشن چوری ہوا، جو اسٹیبلشمنٹ کے طریقے ہیں وہ کرتے رہے مگر میں نے ان سب باتوں کو اختلاف کا ذریعہ نہیں بنایا۔ میری جماعت نے ایک مینڈیٹ دیا تھا، میں نے اس پر فوکس رکھا۔ میں نے حکومت کی رٹ برقرار رکھی۔

مزید پڑھیے: فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس: کمیشن کی رپورٹ میں صوبائیت کی جھلک مایوس کن ہے، سپریم کورٹ

ان سے پوچھا گیا ان کے دور میں ان کی اپنی ایک پریس کانفرنس نہیں چلی تھی تو کیا خلاف آئین نہیں تھا؟ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایڈیٹرز اور سینیئر صحافیوں سے گفتگو تھی اور سنگل کیمرا سے ریکارڈ ہوئی تھی، اسے میں نے چلانے سے روکا تھا۔ اس میں دل کی بات کہی تھی۔ ایک ایشو تھا جو میڈیا میں اور جماعت میں غلط طریقے سے سمجھا جارہا تھا۔ اس پر بات کی تھی اور صحافیوں کو بتایا تھا کہ ہم نہیں چلائیں گے۔‘

اس سوال پر کہ وزارت عظمیٰ کے دور میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ سے ملاقاتیں ہوئی تھیں تو کیا یہ تاثر تھا کہ حکومت آپ نہیں وہ چلا رہے ہیں؟ شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ وہ ان کی حکومت تھی، جنرل باجوہ کی نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی جنرل باجوہ سے کئی ملاقاتیں ہوئی تھیں مگر ہر فیصلہ این ایس سی (نیشنل سیکیورٹی کونسل )کے پلیٹ فارم پر کیا، بند کمرے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

سابق حکمران کا کہنا تھا کہ فیض آباد دھرنے کے وقت ہائیکورٹ نے کہا تھا کہ دھرنے والوں کو ہٹائیں مگر طاقت کا استعمال نہ ہو۔ ’ہماری حکمت عملی تھی کہ معاملے کو لمبا کرکے ختم کردیں۔ ہم اپنے طریقے سے کام کریں۔‘

میں نے صرف ایک اجلاس کیا کہ ہم نے کیا کرنا ہے، بہت واضح فیصلے کیے مگر اگلے دن پٹیشن ہوتی ہے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اور سب اہلکاروں کو بلا کر کہا گیا کہ 2 دن کے اندر دھرنا ختم کروائیں۔

پھر کارروائی ہوئی جو میں نے خود دیکھی ہیلی کاپٹر سے۔ صبح کے وقت پولیس چہل قدمی کرتے ہوئے آئی، کوئی انتظام نہیں تھا بکتر بند گاڑیوں وغیرہ کا، صرف 10، 12 شیل مارے اور آگے سے 500 آنسو گیس کے گرنیڈ مارے اور پولیس منتشر ہوگئی۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسےکام ہوتے ہیں۔

نواز شریف سے آخری ملاقات میں کیا ہوا؟

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کا میاں نواز شریف سے 35 سال کا ذاتی تعلق ہے۔ اسے دوستی سمجھیں۔ وہ میرے بڑے ہیں اور میرے لیڈر تھے۔ میں ان کے بدترین وقت کا ساتھی ہوں۔ میاں صاحب یہ کہہ دیں کہ میں نے ان سے کوئی عہدہ یا مراعات مانگی ہوں۔ وقت مانگا ہو؟ تو میں ذمہ دار ہوں۔‘

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہمیشہ یہ ذمہ داری نبھانے کی کوشش کی کہ پارٹی اجلاسوں میں جو ان کی سوچ ہے وہ نواز شریف تک پہنچے۔

’میں نے ان سے 5 ملاقاتیں کیں اور کہا کہ ’ووٹ کو عزت دو‘ آپ کی سیاست کا عروج تھا، ہم اس سے ہٹیں گے تو ہماری جماعت ختم ہوجائے گی۔ میں نے ایک سال پہلے کہہ دیا تھا کہ میں الیکشن نہیں لڑوں گا۔ میں نے 10 الیکشن جماعت کی طرف سے لڑے۔ یہ سب باتیں ان کو بتائیں اپنا پورا موقف ان کو بتایا۔ بہرحال انہوں نے جو فیصلہ کرنا تھا کیا۔‘

آخری اجلاس میں میں نے ان سے پھر کہا ’جو راستہ آپ نے چنا، وہ آپ کے لیے مناسب نہیں۔ میں اس سیاست سے اتفاق نہیں کرسکتا‘۔ باقی باتیں ہم دونوں کے درمیان ہی رہیں گی۔

شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ ان پر شہباز شریف کی پچھلی حکومت میں شمولیت کے لیے بہت دباؤ تھا مگر انہوں نے حکومت جوائن نہیں کی۔ ’میں اس حکومت کو ایک مناسب حکومت نہیں سمجھتا تھا۔‘

مزید پڑھیں: کیا نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی صلح ہو گئی ہے؟

خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ان کے مریم نواز سے کوئی اختلافات نہیں۔ ’مجھے نواز شریف نے کہا تھا کہ پارٹی کو زندہ رکھنا ہے، پارٹی دباؤ میں ہے۔ مجھے پارٹی میں سینیئر وائس پریذیڈنٹ کا عہدہ دیا گیا۔ میں نے احسن اقبال کے ساتھ پورے پاکستان کے اضلاع کے دورے کیے۔

اس وقت بھی میں نے میاں صاحب اور مریم بی بی سے علیحدہ ملاقات کی تھی۔ میں نے کہا تھا کہ جب آپ جماعت کے اندر ایک جنریشن کی تبدیلی چاہتے ہیں تو اگر آپ اپنے خاندان میں کسی اور کو عہدہ دینا چاہتے ہیں تو پھر میں ان کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ ہم نے نواز شریف کے ساتھ سیاست کی ہے اب اگلی نسل جب آتی ہے تو پھر آپ بیک بنچر بن جاتے ہیں۔ ہم نے بے نظیر بھٹو صاحبہ کے دور میں جنریشن تبدیلی دیکھی تھی۔‘

نیب نے 38 جھوٹے کیسز بنائے

شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے ان کے خلاف 38 انکوائریاں کروائیں اور وہ سب میں بری ہو چکے ہیں۔

‘میرا ضمیر مطمئن تھا۔ جتنی نیب میں نے بھگتی ہے، شاید ہی کسی نے بھگتی ہو۔ میرے خلاف ثبوت بنائے گئے، وہ ساڑھے 5 فٹ لمبے کاغذات تھے۔ میرے قد سے ایک فٹ کم تھے۔ ’ان کا کہنا تھا کہ نیب ایک غلط ادارہ ہے جس کو ختم ہونا چاہیے، اس نے پاکستان کا بہت نقصان کیا ہے۔ ان کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے شخص کو منتخب کرتے ہیں، پھر کیس ڈھونڈتے ہیں کہ اس پر کیا لگانا ہے۔‘

’ہم تو سیاسی لوگ ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ سیکریٹری لیول کے ریٹائرڈ عزت دار لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ بے گناہ لوگوں کو خراب کرتے ہیں۔ ایک ایم ڈی پی ایس او ریٹائر ہوگئے تھے نیب کے غلط کیسز کی وجہ سے بہت ساری جگہوں پر نوکریوں سے محروم رہ گئے ان کی زندگی تباہ کردی۔

 موجودہ چیئرمین نیب ایک بہتر سوچ کے مالک ہیں۔ انہوں نے بہت سے کیسز کو ریویو کیا ہے اور یہ درست طریقہ ہے۔ نیب میں ترامیم کے بجائے کیسز کو ریویو کروائیں۔

کیا احسن اقبال ’عوام پاکستان‘ میں آئیں گے؟

شاہد خاقان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ انہوں نے ابھی کسی سے بات نہیں کی۔ وہ سب اقتدار میں ہیں۔ جب وقت آئے گا تو ہم ان سے بات کریں گے۔ ’وہ بھی آج محسوس کرتے ہیں کہ جہاں وہ کھڑے ہیں ان کے لیے مناسب نہیں۔‘

جب جماعتیں اصولوں پر سمجھوتہ کرلیں تو پھر اصولی لوگ یقیناً تشویش کا شکار ہوتے ہیں۔

ان سے پوچھا گیا کہ ان کی جماعت میں ابھی تک زیادہ لوگوں نے دھڑا دھڑ شمولیت اختیار نہیں کی، اس تناظر میں وہ اپنی جماعت کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’عوام پاکستان‘ دھڑا دھڑ شمولیت والی جماعت نہیں ہے۔ وہ پکی پکائی جماعت نہیں جو راتوں رات بنتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: جنرل فیض کے خلاف الزامات اوپن ہونے کے بعد سماعتوں کا احوال بھی پبلک کیا جائے، شاہد خاقان

’ہمیں اچھی شہرت والے لوگ چاہییں جو ملک کے لیے کچھ کرسکیں۔ اب پڑھے لکھے لوگ ہمیں عزت دیتے ہیں۔ بجٹ پر ہماری جماعت نے مدلل تنقید کی۔ ہم پارٹی کو ضلع کی سطح پر منظم کررہے ہیں۔ ہم جماعت کو نیچے سے اوپر لائیں گے۔’

ان سے پوچھا گیا کہ عمران خان کی طرح 22 سال کی جدوجہد کے لیے تیار ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ جی بالکل تیار ہوں۔ ہم اقتدار چھوڑ کر آئے ہیں۔

’ہم نے ویژن ڈاکومنٹ دیا ہے کہ ہم فلاں فلاں اقدامات کریں گے۔ ہم صرف باتیں نہیں کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔’

کب تک آپ کی جماعت جیتنے کی پوزیشن پر آجائے گی؟

’میں اسی بات کو وننگ پوزیشن سمجھتا ہوں کہ ہم آج کھڑے ہیں۔ ہم اقتدار کی ہوس میں نہیں پڑے اور ملک کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔اسی بات کو لے کر ہم جماعت کو آگے بڑھائیں گے، مسائل کے حل کی بات کریں گے۔

عمران خان کی گالی گلوچ کی طرز سیاست سے اختلاف ہے

ایک سوال ہر شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ وہ عمران خان کی سیاست سے اتفاق نہیں کرتے۔ ’عمران خان سے کوئی اختلاف نہیں مگر 4 سال اقتدار میں انہوں نے ایک پیسے کا کام نہیں کیا۔ ان کی گالی گلوچ کی سیاست سے اتفاق نہیں کرتا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان آج کل جو کچھ کررہے ہیں اس کا مقصد واضح نہیں ہے۔

ان سے پوچھا گیا کہ نوجوان نسل پی ٹی آئی کے ساتھ ہے، وہ اس کو اپنی جماعت کی طرف کیسے مائل کریں گے؟ تو شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو جھوٹے وعدوں سے مائل نہیں کریں گے۔ عمران خان 4 سال میں نوجوان کو کیا دے کر گئے ہیں؟ نوجوانوں کا مسئلہ جھوٹ بولنے یا لیپ ٹاپ دینے سے حل نہیں ہوگا۔ 2 کروڑ 60 لاکھ بچے جو اسکول سے باہر ہیں ان کو تعلیم دینا ہوگی، نوجوانوں کو معیشت میں بہتری اور روزگار چاہیے، بہتر مستقبل کی امید چاہیے۔

‘مجھے بتائیں عمران خان نے نوجوانوں کو کیا دیا ہے؟ کیا 3 سال 8 ماہ میں حقیقی آزادی دی ہے؟ حقیقی آزادی معیشت کی بہتری سے ملتی ہے، معیشت سیاسی استحکام سے ٹھیک ہوگی، خان صاحب اس میں حصہ ڈالیں۔‘

’اگر میں عمران خان کی جگہ ہوتا تو ملک کی بات کرتا۔ اپنی بات یا مقدمات کی بات نہ کرتا۔ آج سیاستدانوں، فوج اور عدلیہ کو بیٹھ کر ملک کے مستقبل کا تعین کرنا ہے۔ آپ کا نظام تباہ ہوچکا ہے۔ آپ کو اسے دوبارہ سے بنانا ہے۔کرپشن کو ختم کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شاہد خاقان کی سیاسی جماعت کا باضابطہ اعلان کل، کون کون شامل ہونے جارہا ہے؟

سال 2018 میں عمران خان کرپشن کا نعرہ لے کر آئے تھے مگر ان کے دور میں جتنی کرپشن بڑھی، ملکی تاریخ میں کبھی نہیں بڑھی۔ ڈی سی اور کمشنر بولی پر لگتے تھے۔ صوبے عثمان بزدار اور محمود خان جیسے لوگوں کو دیے گئے سب سے پہلے وہی ان کو چھوڑ گئے۔ سب سے پہلے احتساب کا انچارج (شہزاد اکبر) ملک سے بھاگا۔

اس سوال پر کہ آپ ’ووٹ کو عزت دو‘ پر یقین رکھتے ہیں تو پھر عمران خان سے بات کیوں نہیں کرتے جو اس وقت اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں؟ شاہد خاقان کا کہنا تھا’میرا اسٹیبلشمنٹ سے جھگڑا نہیں ہے۔ میں آئین کی بات کرتا ہوں۔ اس ملک کے مسائل کا حل آئین میں ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ آئین سے باہر ہے تو میں ان کا مخالف ہوں، اگر وہ آئین کے اندر رہیں گے تو میں ان کے ساتھ ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ آئین کی بات عمران خان کریں تو میں ان کا ساتھ دوں گا۔ اقتدار کے لیے عمران خان کے ساتھ نہیں ہوں گا مگر جدوجہد آئین کی ہو تو ضرور کروں گا۔ اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور حکومت کی جگہ آئین میں متعین ہے۔ ہمیں اس کے مطابق چلنا ہے یا پھر آئین کو تبدیل کردیں۔

کوئی نظام ضابطے کے بغیر نہیں چل سکتا

ان کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ درست ہے کیونکہ آئین کی روح کے مطابق فیصلہ ہوا ہے۔

ججز کے انتخاب کا طریقہ غلط ہے

عدلیہ کی حکومتی امور میں مداخلت پر شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی عدلیہ دنیا کی واحد عدلیہ ہے جو اپنا انتخاب خود کرتی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی میں نام آتے ہیں مگر وہ انہیں مسترد نہیں کرسکتی۔ ججز کے نام دیکھتے ہوئے پارلیمانی کمیٹی کا کوئی بھی ممبر اس ڈر سے نہیں بولتا کہ اس نے جج بن ہی جانا ہے میرے خلاف ہو جائے گا۔

 پارلیمنٹ کے پاس ججز منتخب کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ ججز کے 10 سال کے اثاثے واضح ہونے چاہییں۔

آئی پی پیز کے ساتھ کیپیسٹی چارجز مسئلہ نہیں ہے

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے غلط نہیں تھے بلکہ معیشت خراب ہونے کی وجہ سے خسارہ ہورہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے تجربہ کرکے دیکھا ہے کہ 90 ارب یونٹ بجلی کے ہم بناتے تھے اور بیچتے تھے، جب زیادہ یونٹ بنائے تو 145 ارب یونٹ بھی بیچے کیونکہ معیشت ٹھیک ہونے سے ڈیمانڈ بڑھ گئی۔

بجلی بنتی بھی ڈالرز میں ہے اور اس کا ریٹ بھی اسی حساب سے طے ہوگا۔ اگر ڈالر 3 گنا بڑھے گا تو بجلی کا ریٹ بھی 3 گنا بڑھے گا۔

آپ نے ایک معاہدہ کیا ہے تو کیپیسٹی پیمنٹ کرنی پڑے گی یہ پوری دنیا میں ہوتی ہے۔

قومی حکومت کے وزیراعظم بنیں گے؟

’میں کسی غیر آئینی عمل کا حصہ نہیں بنوں گا۔ یہ ہمارے منشور میں شامل ہے۔ قومی حکومت کس قانون کے تحت بنے گی؟‘

مزید پڑھیے: ’عوام پاکستان‘ پارٹی کا تحریری منشور جاری، اس میں خاص کیا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ ’میں تو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ جماعت چھوڑ کر آیا ہوں۔ وہ تو پکی پکائی جماعت ہوتی ہے۔‘

9 مئی بہت بڑا سانحہ ہے

9 مئی 2023 کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب ملک کے لوگ فوج کی تنصیبات پر حملہ آور ہوجائیں یہ بہت بڑی بات ہے، یہ سانحہ ہے۔

’اس کا مطلب وہ لوگ جتنے بھی تھے وہ حملہ آور ہوئے۔ فوجی تنصیبات پر انہوں نے آگ لگائی، توڑ پھوڑ کی،گھیراؤ کیا، اس بات کو 15 ماہ ہوگئے حکومت خاموش بیٹھی ہے کیوں؟‘

ان سے کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کا ٹرائل رکا ہوا ہے تو شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جو سویلین لوگ تھے، ان کو پکڑنا چاہیے تھا۔ سول عدالتوں میں ٹرائل چلا دیتے۔

انگلینڈ میں کیا ہوا ہے، انہوں نے دن رات عدالتیں چلائیں۔ انہوں نے ہزاروں لوگوں کو اندر کردیا، شہادتیں اکٹھی کی ہیں۔ آپ نے ایک آدمی بھی اندر نہیں کیا۔

حکومت کی ذمہ داری ہے کہ پراسیکیوشن کرے۔ شہادتیں اکٹھی کرے۔ ان کو عبرت ناک سزائیں دے۔ 100 فیصد حکومت کا قصور ہے۔ آپ نے کیوں کارروائی نہیں کی۔ 15 ماہ بعد آپ کا کیس کمزور ہوجائے گا، عدالتوں میں کھڑا نہیں ہوسکے گا۔

حکومت کو فرد جرم عائد کرنی تھی۔ ثبوت دیں اور عدالتوں سے ان کو سزا دلوائیں۔ ضمانت مل بھی جائے تو آپ کارروائی تو کریں۔

حکومت چلتی نظر آرہی ہے؟

نہ یہ حکومت ہے اور نہ چل رہی ہے۔ حکومتیں اخلاقی اتھارٹی پر چلتی ہیں۔ جس حکومت کا مینڈیٹ ہی مشکوک ہو، صلاحیت ہی مشکوک ہو وہ کیا کرپائے گی؟ 6 مہینے گزر گئے ہیں کوئی عقل کی بات نظر آئی ہے؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp