نقاب

اتوار 25 اگست 2024
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

شیکسپیئر نے کہا ہے کہ ساری دنیا ایک اسٹیج ہے، تمام مرد اور عورتیں صرف اداکار ہیں، اور ایک آدمی اپنے وقت میں مختلف کردار ادا کرتا ہے، اس کا کردار 7 عرصوں پر محیط ہے۔

انسان تَہ بَہ تَہ کئی نقابوں میں چھپا ہوتا ہے، زندگی کے اسٹیج پر ہر انسان آتا ہے، بیک وقت کئی کردار کھیلتا ہے اور ہر کردار میں نیا نقاب اس کے چہرے کا حصہ بن جاتا ہے۔ کبھی وہ نقاب وفا شعار، تو کبھی بے وفا، کبھی ظالم کبھی مظلوم، کبھی عیار، مکار تو کبھی قاتل ریپسٹ، کبھی دھوکہ باز تو کبھی چالاک، لیکن چند انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی کتنی بھی تَہیں کھول لیں وہ شفاف، ایمان دار، مخلص، وفا شعار اور شرافت کا پیکر ہی ثابت ہوتے ہیں۔

لیکن ایسے لوگ چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل پاتے اور ایسے چند انسانوں کے ساتھ دھوکہ باز، عیار، مکار، نقاب پوش ایسا بھیانک سلوک کرتے ہیں کہ انسانیت سے اعتبار ہی اٹھ جاتا ہے اور اس میں مرد اور عورت کی تفریق نہیں، صرف روبرو شرافت کا پیکر کون ہے یہ اہم ہوتا ہے۔

حالیہ کلکتہ کیس نے پھر سے ایک بحث شروع کردی ہے کہ آیا انسانیت سوز واقعات کا سلسلہ کبھی بند بھی ہوگا یا ہر بار ایک نیا سفاک طریقہ کار انسانوں کا سر شرم سے جھکاتا رہے گا۔

دھوکہ، فریب، بے وفائی، ریپ اور قتل کرنے والے نہ درندے ہوتے ہیں نہ حیوان، ان گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرنے کا شرف قدرت نے صرف انسان کو بخشا ہے جسے ’اشرف المخلوقات‘ کا لقب دے دیا گیا ہے۔

ریپ کے واقعات ہمارے جیسے سماج میں ایک معمول کی بات سمجھی جاتی ہے اور ایسی خبریں صرف دو کالمی خبر تک محدود رہتی ہیں۔

جب دسمبر 2012 میں دلی میں چلتی بس میں ایک نہتی جوان لڑکی جیوتی کے ساتھ گینگ ریپ کی ہولناک تفصیلات سامنے آئیں تو پوری دنیا دہل گئی تھی، یقین نہیں آتا تھا کہ تشدد کرنے کے ایسے ہتھکنڈے بھی کوئی انسان استعمال کرسکتا ہے لیکن یہ کسی درندے یا حیوان کی نہیں بلکہ 6 انسانوں کی بربریت تھی۔

پھر اسلام آباد میں 20 جولائی 2021 کو ایک نوجوان لڑکی نورمقدم کو اس کے اپنے محبوب نے اپنے ہی گھر میں دو روز تک تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر چھری سے اس کا سر تن سے جدا کردیا۔

’میں زعم میں اُس کے پیار کے

جب دنیا سے لڑ جاتی ہوں

چھپ چھپ کر ساری نظروں سے

جب اس سے ملنے جاتی ہوں

وہ مجھ کو ہی دھمکاتا ہے

اور مجھ پہ چھری چلاتا ہے

میں خوف سے چیخنے لگتی ہوں

کھڑکی سے چھلانگ لگاتی ہوں

اپنے محبوب کے ہاتھوں ہی

بےدردی سے ماری جاتی ہوں

مر جاتی ہوں

مر جاتی ہوں‘

اس لرزہ خیز واقعہ کے بعد جس نے بھی جائے حادثہ کو دیکھا اس نے وہاں کی منظر کشی کرنے کو ناقابل بیان قرار دیا، ایک لمبی فہرست ہے ایسے بہیمانہ سانحات کی، چاہے وہ ایاز امیر کے بیٹے شاہنواز کی اپنی خوبرو بیوی سارہ کو ہتھوڑا مار کر قتل کرنے کی ہو، حیدرآباد کی قراۃ العین کی شوہر کے ہاتھوں تشدد کے بعد مارے جانے کی ہو، نسیم بی بی اور اس کے نومولد بچے کی بے رحمانہ موت ہو، یا ملتان میں ثانیہ زہرا کی خودکشی ہو، جسے قتل بھی کہا جارہا ہے۔

لیکن 9 اگست 2024 میں کلکتہ میں رونما ہونے والے ریپ اور قتل کیس نے پھر سے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

کلکتہ کے سرکاری اسپتال کی ایک جونیئر لیڈی ڈاکٹر ممیتا جو 20 گھنٹے سے ڈیوٹی پر تھی اور اگلے 16 گھنٹے مزید ڈیوٹی باقی تھی، کام سے تھوڑا وقفہ میسر آیا تو زرا دیر سستانے کو اسپتال کے سیمینار روم میں سوئی اور پھر صبح اس ڈاکٹر کی لاش ملی جسے پہلے خودکشی کا کیس قرار دیا گیا۔

4 سے 5 گھنٹے پر محیط بہیمانہ تشدد اور ریپ کی تفصیلات نے ہر ذی شعور کے رونگٹے کھڑے کردیے، اس تشدد، ریپ اور خون کے پیچھے آر کے اسپتال کی انتظامیہ، پولیس حتیٰ کہ حکومتی اہلکار تک کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔

’میں ایک مسیحا تھکی ہاری

جب گھنٹوں ڈیوٹی کرنے پر

دو گھڑیاں دم لینے کے لیے

بےسدھ ہو کر سستاتی ہوں

کئی ہاتھ کہ مجھ کو دبوچتے ہیں

دیوار سے جسم کو پھوڑتے ہیں

شدت سے گلے کو گھونٹتے ہیں

دیوار سے چہرہ ٹکرا کر

جب عینک میری ٹوٹتی ہے

تب ٹوٹی کرچیاں عینک کی

مری آنکھوں میں کُھبنے لگتی ہیں

اور آنکھیں خون بہاتی ہیں

ہوتا ہے بدن ٹکڑے ٹکڑے

مری ٹانگیں چیر دی جاتی ہیں

بن آہوں کے میں سسکتی ہوں

بن مچلے تڑپتی رہتی ہوں

آواز کہیں دب جاتی ہے

آواز بنا میں چیختی ہوں

آخر تھک ہار کے اک لمحے

پرواز مری روح کرتی ہے

میں جسم سے مکتی پاتی ہوں

مر جاتی ہوں

مر جاتی ہوں‘

تاہم دیکھنے کی بات یہ ہے کہ سانحہ چاہے 2012 کا جیوتی بس گینگ ریپ کا ہو یا ڈاکٹر ممیتا کے ساتھ اندوہناک تشدد اور موت ہو، ہندوستان کی عوام جس طرح مظلوم کی حمایت، مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور انصاف کے حصول کے لیے سڑکوں پر نکل آتی ہے ایسے احتجاجی مظاہروں کا عشر عشیر بھی ہمارے ملک میں ہوتا نظر نہیں آتا۔

دوسری جانب ہر لرزہ خیز واقعہ کے بعد عقل حیران رہ جاتی ہے کہ انسان ہر بار تشدد کے کیسے نئے اور سفاک طریقوں سے لیس ہوکر انسانیت پر حملہ آور ہوتا ہے۔ ہر بربریت کے بعد یہی ذہن میں آتا ہے کہ اس سے زیادہ بھیانک سانحہ رونما نہیں ہوسکتا تھا، لیکن کچھ عرصہ نہیں گزرتا کہ کسی اگلے سانحے پر یہی جملہ زبان پر دوبارہ آجاتا ہے۔

انسان خود اپنے نقابوں کی اصلیت نہیں جانتا کہ کب اور کیسے حالات میں اس کا اگلا نقاب کیا ہوگا، انسان سے زیادہ بے رحم، سفاک اور ناقابل اعتبار کوئی دوسری مخلوق نہیں ہوسکتی، اس دنیا کو صرف وہی چند لوگ رہنے کے قابل بنا رہے ہیں جن کے نقابوں کی کتنی ہی تَہیں اتار دی جائیں لیکن وہاں ہر تَہ شفاف، بے باک اور سچی ملے گی، ان سچے اور کھرے لوگوں کی قدر کریں ورنہ یہ دنیا گھناؤنے کرداروں کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp