’حمل ضائع ہونے کی تکلیف سے ابھی باہر نہیں آئی تھی کہ اس سے قبل اس جان لیوا بیماری کی اطلاع مل گئی‘۔
27 برس کی آمنہ مسعود کا تعلق اسلام آباد سے ہے، اور وہ اوورین کینسر سے لڑ رہی ہیں۔ جنہوں نے بتایا کہ وہ گزشتہ برس دوسری بار ماں بننے جا رہی تھیں۔ اور ان کے گھر میں خوشیوں کا سماں تھا کہ چوتھے مہینے کے دوران انہیں اچانک پیٹ میں درد ہوا، جس کے بعد اسقاط حمل سے گزرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیں خواتین میں بڑھتے سروائیکل کینسر کی وجوہات کیا ہیں؟
’اچانک میری طبیعت اتنی خراب ہوئی کہ گھر والوں کو ایمرجنسی میں اسپتال لے جانا پڑ گیا، حالانکہ میرے گھر والے مجھے بغیر وقت ضائع کیے فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس لے گئے، لیکن اس کے باوجود بچے کو نہ بچا سکے‘۔
اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کی چمک محسوس ہو رہی تھی۔ صرف ایک برس میں ان کی زندگی 360 کے زاویے سے بدل چکی تھی۔
انہوں نے بات کرتے ہوئے کہاکہ میرا آپریشن ہوگیا اور گھر آگئی۔ ’چونکہ وہ ایک سافٹ ویئر انجینیئر ہیں اور اسلام آباد کی ایک سافٹ ویئر کمپنی کے ساتھ کام کرتی ہیں، تو انہیں دفتر کی جانب سے زیادہ چھٹیاں نہ ملنے پر آپریشن کے 3 ہفتوں بعد کام پر جانا تھا۔ اچانک انہیں دفتر میں ہی یک دم سے پیٹ میں شدید درد شروع ہوا جس پر انہوں نے پیٹ درد کی گولی کھانے کو ترجیح دی‘۔
انہوں نے کہاکہ اس سے قبل بھی اکثر اوقات ایسا ہوتا تھا، لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید میں اپنی خوراک کا دیہان نہیں رکھتی۔ اور باہر کا کھانا زیادہ کھانے کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے، لیکن اس روز گولی کھانے کے باوجود بھی مجھے آرام نہیں آیا۔
جب درد بڑھتا گیا تو ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا، اور ڈاکٹر نے مختلف ٹیسٹ کیے اور پھر وہ خبر آئی جو آمنہ کے لیے دنیا دھندلا کر دینے والی تھی، انہیں اوورین کینسر تھا۔ ’ابھی شادی کو صرف 4 سال ہوئے تھے، ایک طرف اپنی 2 سال کی بیٹی کا مستقبل، اور دوسری طرف اپنے شوہر کا تنہا چھوڑ جانے کا خوف بھی ستا رہا تھا‘۔
’ڈاکٹر کے اس جملے نے میری کل کائنات کو ہلا کر رکھ دیا تھا، اور جب میں اپنے حواس میں آئی تو مجھے سب سے زیادہ تکلیف اپنی بیٹی اور بے حد پیار کرنے والے شوہر کے لیے ہوئی۔ کیونکہ میں اپنے شوہر سے کسی قیمت دور نہیں ہونا چاہتی تھی۔ اس وقت مجھے یہی لگ رہا تھا کہ شاید وہ مجھے چھوڑ نہ دیں‘۔
یہ بھی پڑھیں پاکستان میں بریسٹ کینسر سے سالانہ 44 ہزار خواتین کی اموات ریکارڈ
ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ علاج ممکن ہے لیکن یہ ایک طویل اور مشکل سفر ہوگا۔ کیموتھراپی، سرجری اور ریڈیوتھراپی، ان سب کا بہادری سے سامنا کرنا ہوگا۔ اور اس وقت وہ ان تمام چیزوں کا بہت ہی دلیری سے سامنا کررہی ہیں۔ اس وقت کیموتھراپیز کی وجہ سے ان کے بال جھڑ گئے ہیں، جبکہ متلی اور تھکاوٹ نے انہیں کمزور کردیا۔
’مجھے اپنے بال بہت پسند تھے، اور میں کبھی کسی کو ہاتھ تک نہیں لگانے دیتی تھی، مگر اب دل بہت سخت ہوگیا ہے۔ اب صرف جینا چاہتی ہوں اپنی بیٹی اور اپنے اس شوہر کے ساتھ جو بہت کچھ برداشت کرنے کے باوجود میرے ساتھ کھڑا ہے‘۔
ایک مزید سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ میں مشکل وقت گزارا چکی ہوں، اب کچھ ہی سیشنز رہ گئے ہیں جس کے بعد میں کینسر سے چھٹکارا حاصل کر لوں گی، مگر اس کے بعد مجھ پر یہ قیامت شاید ٹوٹ سکتی ہے کہ میں کبھی ماں نہ بن سکوں۔ لیکن میرے شوہر مجھے کہتے ہیں کہ اللہ ہمیں بیٹی کی نعمت سے نواز چکا ہے اور وہ مزید اولاد نہیں چاہتے۔
’وہ میری محبت میں ایسا کہتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو مجھے اس سے کہیں زیادہ تکلیف ہوگی، ڈاکٹرز کے مطابق 40 فیصد چانسز ہیں کہ میں شاید دوبارہ ماں بن سکوں، لیکن اللہ کی جو مرضی‘۔
اس بیماری کے شروع میں اکثر خواتین کو کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، ڈاکٹر شاہدہ
گائناکولوجسٹ ڈاکٹر شاہدہ ملک کہتی ہیں کہ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو بہت سی خواتین کی زندگیوں کو متاثر کررہی ہے۔ یہ ایک بہت پیچیدہ اور چیلنجنگ سفر ہوتا ہے، جس میں ایک خاتون کو جذباتی اور جسمانی دونوں طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس بیماری کے شروع میں اکثر خواتین کو کوئی خاص علامات ظاہر نہیں ہوتیں، کبھی کبھی پیٹ میں درد، پھیلاؤ، یا غیر معمولی خون بہنے جیسی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں، لیکن خواتین اسے ماہواری کا مسئلہ یا پھر بہت معمولی مسئلہ سمجھ کر گھریلو ٹوٹکے شروع کر دیتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس کینسر کی تشخیص 90 فیصد خواتین میں آخری مراحل میں ہوتی ہے، جب اس مرض سے لڑنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہونے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کینسر میں مبتلا خواتین میں سے زیادہ تر کی موت ہو جاتی ہے۔
کیا اوورین کینسر میں مبتلا خاتون ماں بن سکتی ہے؟
اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اوورین کینسر کے بعد ماں بننا ایک پیچیدہ سوال ہے جس کا جواب کئی عوامل پر منحصر ہوتا ہے۔ یہ کینسر کے اسٹیج، اووریز کے متاثر ہونے، جسمانی صحت اور دیگر چیزوں کو مد نظر رکھ کر ہی بتایا جا سکتا ہے۔
’بہت سی خواتین خوش قسمتی سے ماں بن جاتی ہیں، اس میں ان کی عمر بہت زیادہ معنی رکھتی ہے۔ اگر کوئی جوان بچی ہے اور کینسر کے علاج کے بعد اس کی صحت بہتر ہوتی ہے۔ اور اس کی اووریز بھی اتنی خراب نہیں ہوتیں۔ تو ایسی خواتین میں ماں بننے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں زیادہ تر خواتین میں اس وقت تشخیص ہوتی ہے جب تھرڈ اسٹیج ہوتا ہے۔ جس میں ان کا خود کا بچنا بہت مشکل ہو جاتا ہے‘۔
اگر اوورین کینسر کے بعد حمل ٹھہر جائے تو کیا مسائل ہوسکتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر اوورین کینسر کے علاج کے بعد خاتون حاملہ ہو جاتی ہے تو کچھ خطرات بھی موجود ہو سکتے ہیں۔ مثلاً بچے میں پیدائشی نقائص کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ اس لیے حمل سے پہلے اور دوران ڈاکٹر کی نگرانی بہت ضروری ہے۔ اس لیے وہ خواتین جو اس کینسر کے بعد ماں بننے کی خواہش رکھتی ہیں وہ پہلے ماہر امراض نسواں سے لازمی مشورہ کریں۔
اووریز کا کینسر کیوں بڑھ رہا ہے؟
اووریز کا کینسر بڑھنے کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہدہ نے کہاکہ اس میں وزن کا بڑھنا، سیگریٹ نوشی، ہارمونز کا عدم توازن، ورزش نہ کرنا، قبض، خوراک کا اچھا نہ ہونا، بڑھاپا اور پھر فیملی ہسٹری بھی شامل ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں پاکستانی خواتین میں ای سگریٹ کا بڑھتا رجحان، اس کے نقصانات کیا ہیں؟
طرز زندگی کو بہتر بنانا بہت ضروری ہے، کیونکہ خواتین میں اس کینسر کے کیسز میں کافی اضافہ ہو رہا ہے، چاہے کسی بھی قسم کا درد محسوس ہو وقت پر ڈاکٹر سے رجوع کریں تاکہ اس کینسر کو کنٹرول کیا جا سکے۔
اس کینسر کی علامات کیا ہوتی ہیں؟
اووریز کے کینسر کی مختلف علامات ہیں، جنہیں عام طور پر بہت نارمل محسوس کیا جاتا ہے۔ جن میں پیٹ کا پھولنا، بھوک میں کمی، ناف کے نیچے درد ہونا، پیشاب میں تکلیف، پیشاب میں خون آنا، تھکاوٹ اور قبض وغیرہ شامل ہیں۔