برطانوی نسلی فسادات اور فیک نیوز

اتوار 25 اگست 2024
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ویسے تو دنیا بھر میں فیک نیوز، مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن پر ایک عرصے سے بحث جاری ہے اور ان جھوٹی خبروں سے پھیلنے والے مضمرات کے خاتمے یا کسی حد تک غلط معلومات کے اثرات کو زائل کرنے کے حوالے سے کئی مقالے لکھے جاچکے ہیں، بڑی بڑی ٹیک کمپنیز، میڈیا ہاؤسز اور تعلیمی اداروں نے فیک نیوز کو کاؤنٹر کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر dedicated ڈیپارٹمنٹس بنائے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کے پھیلاؤ کو کم کرنا ممکن نہیں ہوسکا، جب تک ان جھوٹی خبروں کا فیکٹ چیک ہو تب تک وہ خبر دنیا کے کونے کونے پھیل چکی ہوتی ہے اور ان کو پھیلانے والے اپنے مقاصد بھی حاصل کرچکے ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ میں فسادات کا باعث بننے والی ویب سائٹ کا صحافی لاہور سےگرفتار

اس کی ایک حالیہ مثال برطانیہ میں پھیلنے والے نسلی فسادات ہیں جو کہ مبینہ طور پر ایک ڈس انفارمیشن کے ذریعے شروع ہوئے۔ برطانوی تحقیقاتی اداروں نے اس ڈس انفارمیشن کے تانے بانے پاکستان سے جوڑے اور ایک فری لانس صحافی فرحان آصف کو بھی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا، جس کی مبینہ طور پر پھیلائی گئی ایک ڈس انفارمیشن  دراصل برطانیہ میں حالیہ نسلی فسادات کی وجہ بنی۔

پاکستانی حکام کو برطانوی حکام نے اس بارے مطلع کیا جس کے بعد لاہور میں مقیم اس فری لانس جرنلسٹ کو گرفتار کیا گیا اور اس سے تحقیقات جاری ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حالیہ برطانوی نسلی فسادات کا ذمہ دار صرف پاکستان صحافی فرحان آصف ہی ہے یا اس کی وجوہات کچھ اور بھی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ میں سوشل میڈیا پر نفرت اور تشدد کو ہوا دینے کے الزام میں 3 افراد گرفتار

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ چنگاری شعلوں میں تب ہی بدلتی ہے اگر اس کے لیے مطلوبہ مقدار میں بارود موجود ہو ورنہ وہ آہستہ آہستہ سلگ کر راکھ بن جاتی ہے، برطانیہ میں ہونے والے نسلی فسادات کے پیچھے بھی برطانوی سفید فاموں کی جنوبی ایشیائی اور مسلمانوں کے خلاف سالوں سے پنپنے والی نفرت نے اس بارود کا کام کیا، جس کو صرف ہلکی سی ایک فیک نیوز کی صورت میں چنگاری کی ضرورت تھی، اس کے بعد سالوں سے دلوں میں بھری وہ نفرت باہر نکل کر سامنے آگئی جو کہ برطانیہ کی حالیہ تاریخ میں نسلی فسادات کی سب سے بدترین مثال بن گئی۔

برطانیہ میں رہنے والے جنوبی ایشیائی باشندوں کی تضحیک کے لیے ایک خاص نفرت انگیز لفظ ’پاکی‘ عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جب بھی کسی گورے کو کسی براؤن اور ساؤتھ ایشین باشندے کے خلاف تضحیک آمیز جملہ کہنا ہوتو وہ یہی لفظ بلڈی پاکی استعمال کرتا ہے، یہ وہ نفرت اور امتیازی سلوک ہے جس کا اظہار اکثر گورے جنوبی ایشائی باشندوں کے خلاف گاہے بگاہے کرتے آئے ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں وہ ڈھکی چھپی نفرت کھل کر سامنے آگئی۔

یہ بھی پڑھیں: برطانوی حکام کا نسلی منافرت پر مبنی آن لائن مواد کی شیئرنگ کو جرم قرار دینے کا عندیہ

یہ ایک اچھی بات ہے کہ موجودہ برطانوی حکومت نے بڑھتی ہوئی اس نفرت اور نسلی امتیاز کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کی ہے اور ان فسادات میں ملوث تمام لوگوں کو کڑی سزا سنائی جارہی ہیں۔ لیکن جو نفرت برطانوی سفید فاموں کے دلوں میں پیدا ہوچکی ہے وہ ان سزاؤں سے ختم نہیں ہونے والی۔ برطانیہ کے میڈیا اور اب سوشل میڈیا نے بھی اس نفرت کی آبیاری خوب کی ہے۔ اس کی تازہ ترین ایک مثال بی بی سی اردو میں 23 اگست 2024 کے مضمون میں بھی نظر آتی ہے۔

بی بی سی اردو نے سیکورٹی امور کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کے ایک مضمون کا اردو ترجمہ کرکے چھاپا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کس طرح یمن میں کھلے عام سوشل میڈیا پر پاکستانی پستول سے لے کر کلاشنکوف تک بکتے ہیں۔ بی بی سی اردو کے مضمون کی ہیڈ لائن اتنی  misleading ہے کہ پورا مضمون چھان مارا کہ اس میں بتایا جائے گا کہ کیسے پاکستانی اسلحہ یمن میں بکتا ہے، اس کے ثبوت کیا ہیں؟ اس بارے پورے مضمون میں کچھ نہیں لکھا ہوا۔ پورے مضمون میں صرف ایک جملہ پاکستان بارے لکھا ہوا ہے۔’ایک اور اشتہار میں پاکستان کا بنا ہوا خاکی رنگ کا گلوک پستول تقریبا 900 ڈالر میں پیش کیا گیا ہے۔‘

یعنی بغیر صحافتی اصولوں کو فالو کیے ہوئے اتنا بڑا دعویٰ کیا گیا ہے، اس مضمون کی ہیڈلائن اتنی مس لیڈنگ ہے کہ یقین نہیں آتا، بی بی سی جیسا ادارہ اس طرح اپنے قارئین کو mislead کررہا ہے،کیا یہ مناسب نہیں کہ برطانوی حکومت اور برطانوی میڈیا پہلے اپنے گھر کی صفائی کریں اور پھر دوسروں پر انگلی اٹھائیں۔

یہ بھی پڑھیں: نوازشریف سے برطانوی ہائی کمشنر کی ملاقات، مقدمات سے بریت پر مبارکباد

دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی بارے ایک اور مثال بھی آج کل پاکستان میں خوب زیر بحث ہے، پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر سوشل میڈیا ویب سائٹ  ایکس پر گزشتہ دنوں ٹاپ پر ٹرینڈ کررہی تھیں۔ اس ٹاپ ٹرینڈ کی وجہ ان کے حالیہ دنوں میں کچھ سیاسی سرگرمیوں بارے میں بتایا جارہا ہے۔

میڈیا اور سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر مبینہ طور پر عمران خان کی رہائی کے حوالے سے سرگرم ہیں، چند دن پہلے حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف کے ساتھ مری میں ہونے والی ملاقات کو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی بتایا جاتا ہے، تاہم نواز شریف کے قریبی ذرائع نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ برطانوی ہائی کمشنر کے ساتھ ہونے والی ملاقات 100 فیصد ایک سوشل میٹنگ تھی اور اس کا سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔

ملاقات کا ایجنڈا چاہے کچھ بھی ہو لیکن سوشل میڈیا اور میڈیا پر اٹھائے جانے والے سوالات کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چاہے برطانیہ ہو یا کوئی اور ملک، اگر کوئی ایسے معاملات میں مبینہ طور پر ملوث ہوتو اسے پاکستان کے داخلی معاملات میں دخل اندازی اور سفارتی پروٹوکول کی خلاف ورزی تصور کیا جانا چاہیے، جہاں تک برطانیہ میں ہونے والے نسلی فسادات کا تعلق ہے اس کی بڑی ذمہ داری برطانوی معاشرے میں بڑھتے ہوئے امتیازی سلوک ، hate speech  اور نفرت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp