شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کو قتل کرنے والے لوگ

بدھ 28 اگست 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ پاکستان چار پھولوں کا گلدستہ ہے، آج کہا جا رہا ہے کہ اس گلدستے کا ایک پھول لہو رنگ ہو چکا ہے اور اس میں بہنے والے لہو کی چھینٹیں اب باقی ماندہ پھولوں پر بھی پڑ رہی ہیں۔

پہلے کہا جاتا تھا کہ بلوچستان کی زمین میں سونا ہے۔ یہ معدنیات کا خزانہ ہے۔ یہاں تیل بھی، منرل بھی، سونا بھی چاندی بھی ہے۔ آج کہا جا رہا ہے کہ یہ پتہ نہیں بلوچستان میں زیر زمین کیا ہے لیکن سطح زمین پر اب دہشت گردی ہے، نفرت ہے، علیحدگی پسندوں کا راج ہے، اور پنجابیوں کی لاشیں ہیں۔

پہلے کہا جاتا تھا کہ بلوچستان آدھا پاکستان ہے۔ سب صوبوں کا رقبہ جمع کریں تو ایک بلوچستان بنتا ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ آدھے پاکستان میں آگ لگی ہے اور کوئی اس پر پیٹرول چھڑک رہا ہے۔ کوئی اس آگ کو اس شدت سے دہکا رہا ہے کہ جھلس سارا پاکستان رہا ہے۔

پہلے کہا جا رہا تھا کہ نوجوان اس ملک کا سرمایہ ہیں، یہی مستقبل ہیں، یہی اثاثہ ہیں۔ اب بلوچ نوجوانوں کو کہا جا رہا ہے کہ یہ بے راہ رو  ہیں، بھٹکے ہوئے ہیں، کسی کے ایما پر چل رہے ہیں۔

بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا تصور دنیا میں کہیں نہیں ہو سکتا۔ دنیا کو چھوڑیں اس کا تصور تو پاکستان کے کسی صوبے میں بھی نہیں ہو سکتا۔ ہر صوبے کے لوگوں کے وفاق سے کچھ شکوے ہیں، کچھ شکایات ہیں۔ یہ شکوے شکایات ہر گھر میں ہوتے ہیں۔ ہر گھر میں کوئی بھائی مضمحل ہوتا ہے، کوئی پژمردہ ہوتا ہے۔ کسی کا کاروبار چل رہا ہوتا ہے، کوئی غربت میں پس رہا ہوتا ہے۔ یہ فطرت انسانی ہے۔ لیکن کسی گھر میں ایسا نہیں ہوتا ہو گا کہ دوسرے بھائی کا نام آنے پر بندوق تن جائے، تلواریں نکل آئیں، بھائی  کو شناخت کر کے اس کا گلہ کاٹ دیا جائے۔ یہ رسمِ اذیت صرف بلوچستان میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ہر غیر بلوچی، غیر پشتون کو دشمن کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔

بسوں میں شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کو ذبح کیا جا رہا ہے۔ اس ظلم کے پیچھے نہ بلوچوں کے حقوق کی کاوش ہے نہ ان کی فلاح کا کوئی خیال۔ یہ انتشار پھیلانے والے بھائیوں کو لڑانے والے کسی اور کے ایما پر دہشت پھیلا رہے ہیں۔ ریاست کو چیلنج کر رہے ہیں۔

بلوچستان میں افغانستان کے اثر سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایران کی بلوچستان میں دلچسپی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پاکستان میں جہاں بدامنی ہو گی، انتشار ہو گا، دہشت گردی ہوگی، وہاں بھارت کی سازشوں کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ اس وقت بھی چند لوگ بلوچوں کا نام لے کر کسی ایک بڑے المیے کے منتظر ہیں۔ ایک ایسا المیہ جس میں بلوچوں کے لیے صرف ماتم کی گنجائش بچتی ہے۔

سوال صرف اتنا ہے کہ کیا سارا بلوچستان بغاوت پر آمادہ ہے؟ کیا سب نے علیحدگی پسندوں کی حمایت کا علم اٹھا لیا ہے؟ کیا سارے بلوچ باقی پاکستان سے اس قدر بیزار ہیں کہ موسیٰ خیل جیسے خونچکاں واقعات رونما ہونے لگے ہیں۔ قلات جیسا قتل عام ہونے لگا ہے؟

کوئی بھی المیہ اچانک نہیں ہوتا۔ سانحے کو رونما ہونے میں ایک مدت لگتی ہے۔ ایک عرصے سے بلوچستان محرومی، بے بسی کی دھیمی دھیمی آنچ پر دھک رہا تھا۔ آج وہ آگ بھڑک چکی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے دانشوروں کی نگاہ اس دہکتے الاؤ کی جانب نہیں پڑتی۔ حالات مدت سے خراب ہیں مگر اب خراب تر ہو چکے ہیں۔

اب اسی ملک کے ایک صوبے میں لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر انہیں بسوں سے اتارا جا رہا ہے، ان کو سب کے سامنے بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے۔

اس ملک کے ایک صوبے میں نفرت اتنی بڑھ چکی ہے کہ سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کو دلیری بتایا جا رہا ہے۔ اسی ملک میں شرپسندوں کے گروہ در گروہ بیرون ملک سے آتے ہیں اور اس ملک کے جسم پر زخم لگاتے ہیں اور اسی ملک کے خلاف نعرے لگا کر چلے جاتے ہیں ۔

المیے سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ شرپسند بلوچ نوجوانوں کی ایک اقلیت کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو رہے ہیں کہ ریاست ان کا حق غصب کر رہی ہے۔ نوجوانوں کے ذہنوں کو جس طرح پامال کیا جا رہا ہے وہ تکلیف دہ ہے۔ وطن کے چہرے کو جس طرح بدنما دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ اذیت ناک ہے۔

یہ درست ہے کہ ریاست سے ماضی میں بہت غلطیاں ہوئی ہیں۔ بہت سی کوتاہیوں کا ذمہ دار ہم ریاست کو ٹھہرا سکتے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہماری کوتاہیوں کی فہرست بہت طویل ہوچکی ہے۔ نیپ کی حکومت کو بھٹو صاحب ختم نہ کرتے تو آج بلوچستان میں یہ صورت حال نہ ہوتی۔ انیس سو تہتر میں اکبر بگٹی کے گورنر راج میں بلوچوں پر ستم نہ توڑے جاتے تو آج یہ صورت حال نہ ہوتی۔ مشرف دور میں اکبر بگٹی کو قتل نہ کیا جاتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔

لیکن ریاست کو الزام دینے کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہےکہ بلوچ سرداروں نے بلوچستان میں ترقی کی کوئی سبیل کی ہوتی تو آج بلوچ نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوق نہ ہوتی، کتاب ہوتی۔ اگر اس صوبے کے ایم این ایز،  ایم پی ایز، منسٹرز اور سینیٹرز نے بلوچ عوام کی فلاح و بہبود کی کوئی راہ نکالی ہوتی تو آج بلوچستان کے نوجوان تشدد کے بجائے ترقی کے راستے دیکھ رہے ہوتے۔ اگر چند سرداروں نےجنگ کو کاروبار اور بلوچ جوانوں کو ایندھن نہ بنایا ہوتا تو نہ شورش ہوتی نہ آج  شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہوتا۔

بلوچوں کا مسئلہ بھوک بھی ہے، بیروزگاری بھی، بے علمی بھی مگر اس کا حل بندوق نہیں ہے۔ یہ بلوچ جانتے ہیں مگر چند گمراہ کرنے والے اپنے مفاد کی خاطر اس خطہ زمیں کا سکون برباد کرنے پر تلے ہیں۔ اب دیکھنا یہ کہ ریاست ان مٹھی بھر لوگوں کو خون کی ہولی کھیلنے دیتی ہے، دہشت گردوں کے سامنے سرنگوں ہو جاتی ہے یا اپنے آئین، قانون اور شہریوں کے تحفظ کے لیے کوئی حتمی قدم اٹھاتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp