الیکشن التوا کیس: 6 روز تک جاری رہنے والی سماعت میں کون کونسے اہم موڑ آئے؟

پیر 3 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

27 مارچ بروز پیر کو شروع ہونے والے الیکشن التوا کیس کی آج 3 اپریل کو چھٹی سماعت تھی اور ان 6 دنوں کی سماعت کے دوران کئی اہم مواقع آئے جن سے گزر کر سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے اس اہم ترین کیس کا فیصلہ بروز منگل تک کے لیے محفوظ کر لیا گیا ہے لیکن لگتا یوں ہے کہ معاملہ یہاں بھی نہیں رکے گا۔

ایک عدالتی حکم نامے کو جس سرکولر کے ذریعے مسترد کرکے اس مقدمے کی کارروائی جاری رکھی گئی تھی آج سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اس سرکولر کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے رجسٹرار سے کہا ہے کہ وہ اس عہدے کے لائق نہیں اس لیے وہ استعفٰی دے دیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ 30 اپریل سے بڑھا کر 8 اکتوبر تک لے جانے کے فیصلے کے خلاف 25 مارچ کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جو 27 مارچ کو سماعت کے لیے مقرر ہوئی تھی۔

سماعت کے دوران جو سوالات زیادہ تر موضوع بحث رہے وہ کچھ یوں تھے کہ کیا سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ الیکشن التوا کا مقدمہ سن سکتا ہے کیونکہ یہ 3-4 کی اکثریت سے مسترد ہوچکا ہے۔

سماعت کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس بینچ کی غیر جانبداری پر بہت سے سوالات ہیں اور اس مقدمے کو فل کورٹ کو سننا چاہیے۔ اس کے علاوہ چند نکات یہ بھی تھے کہ آئین کے تحت اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے کے 90 روز میں انتخابات ہونے چاہیئیں، حکومت کے پاس الیکشن کے لیے مالی وسائل ہیں اور نہ ہی سیکیورٹی مہیا کرنے والے ادارے اپنی خدمات دینے کو تیار ہیں، اس لیے یہ مقدمہ پہلے ہائی کورٹ کو سننا چاہیے۔

جب اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو بینچ 5 اراکین پر مشتمل تھا۔ 2 دن سماعت چلتی رہی اور سپریم کورٹ نے بینچ پر اٹھنے والے اعتراضات کو ایک طرف رکھ کر الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کو الیکشن کے راستے میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں دلائل دینے کی ہدایت کی۔

سماعت کے شروع ہی بینچ کے ایک رکن جسٹس جمال خان مندوخیل نے یہ آبزرویشن دے کر سنسنی پھیلا دی کہ وہ اپنے فیصلے پر قائم ہیں اور الیکشن التوا کیس سپریم کورٹ 3-4 کی اکثریت سے مسترد کرچکی ہے۔

اس کے بعد بھی جسٹس مندوخیل مسلسل اس رائے کا اظہار کرتے رہے جو بینچ کے 3 ارکان کی رائے سے بالکل مختلف تھی اور 29 مارچ کو جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اختیارات سے متعلق فیصلہ دیا اور کہا کہ جب تک چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اختیارات سے متعلق قانون سازی نہیں ہوجاتی تب تک ازخود نوٹس مقدمات میں سماعت روک دی جائے۔

اسی روز 29 مارچ کو پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اختیارات کو سپریم کورٹ کے 3 رکنی سینیئر ججز کی کمیٹی کو سونپ دیا۔ پارلیمینٹ نے آئینی ترمیم قومی اسمبلی اور سینیٹ کی منظوری کے بعد صدرِ مملکت کو بھجوا دی۔

الیکشن التوا کیس میں جب 30 مارچ کو مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے اعلان کیا کہ بینچ کے ایک رکن بیان دینا چاہتے ہیں۔ جس کے بعد جسٹس امین الدین خان نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے سماعت سے معذرت کرلی جس پر بینچ ٹوٹ گیا۔

اس پر سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے 31 مارچ کو ایک سرکولر جاری کیا جس میں کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا فیصلہ موجودہ کیس پر اثرانداز نہیں ہوگا۔

سپریم کورٹ نے اس کے بعد 4 رکنی بینچ کے ساتھ مقدمے کی سماعت جاری رکھی لیکن 31 مارچ کو جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی مقدمے کی سماعت سے اس بنا پر معذرت کرلی کہ 30 مارچ کا آرڈر ان کی عدم موجودگی میں ان کی مشاورت کے بغیر لکھا گیا۔ اس پر بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا اور چیف جسٹس نے اعلان کیا کہ وہ بینچ کی ازسرِ نو تشکیل کریں گے۔

اس کے بعد عدالتِ عظمٰی کے 3 رکنی بینچ نے سماعت جاری رکھی جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے اعتراض اٹھایا کہ ایک تو یہ مقدمہ 3-4 کی اکثریت سے مسترد ہوچکا ہے دوسرا انہوں نے کہا کہ اس 3 رکنی بینچ کے بارے میں لوگوں کے تاثرات بہت منفی ہوچکے ہیں۔

31 مارچ کی سماعت کے دوران عدالت کی غیر جانبداری پر عدم اعتماد، ججوں کی کردار کشی اور حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی سیاسی عدم برداشت پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نہ صرف جذباتی ہوگئے بلکہ ایک موقع پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس اقبال حمید الرحمان کے استعفے کو یاد کرکے آبدیدہ بھی ہوگئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بھی انسان ہیں دل رکھتے ہیں، کبھی ایک تو کبھی دوسرے جج پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ ججوں کے بیوی بچوں پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ان کے خاندان پر کیا گزرتی ہوگی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اقبال حمید الرحمان ایک بہترین جج تھے اور ایک متنازعہ فیصلے کی وجہ سے انہیں استعفٰی دینا پڑا اور یہی وہ لمحہ تھا جب چیف جسٹس نے اپنے چشمے اتارے اور آنکھوں پر ہاتھ رکھا اور ان کی آواز بھرآئی لیکن پھر کہنے لگے کہ مجھے جذباتی نہیں ہونا چاہیے تھا۔

آج کی سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر کے دلائل کو دہراتے ہوئے کہا کہ ہم ایک کے حق میں فیصلہ دیں گے تو 6 فریق ہم پر اعتراض کریں گے۔

سپریم کورٹ نے آج وزارتِ دفاع اور خزانہ سے رپورٹیں مانگی تھیں جو جمع کرا دی گئیں۔ اس کے بعد کل کے لیے فیصلہ محفوظ کرلیا گیا لیکن اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے فوری طور پر رجسٹرار سپریم کورٹ کو سرکولر واپس لینے کی ہدایت کی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ مقدمہ آگے جاکر کس انداز میں اختتام پذیر ہوتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp