پاکستان میں انٹرنیٹ کی سست روی کے باعث غیر قانونی وی پی این (ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک) کے استعمال میں اضافہ دیکھا جارہا ہے، اسی تناظر میں پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی (پی ٹی اے) نے وی پی این کی رجسٹریشن کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ رجسٹرڈ وی پی این کے استعمال سے صارفین کا ’پرسنل ڈیٹا‘ محفوظ رہے گا اور فائر وال بھی متاثر نہیں ہوگی۔
پی ٹی اے کی جانب سے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو وی پی این پالیسی کو جلد حتمی شکل دینے کی سفارش بھی کی گئی ہے، تاکہ وی پی این کو بند نہیں بلکہ رجسٹرڈ کروایا جاسکے۔ کیونکہ پی ٹی اے کے مطابق غیر رجسٹرڈ وی پی این کی حوصلہ شکنی کے لیے اس کی رجسٹریشن ضروری ہے۔
کیا پی ٹی اے کی جانب سے تمام غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کو بلاک کرنا ممکن ہوگا؟
مزید پڑھیں: فائر وال کی تنصیب کے بعد انٹرنیٹ کی رفتار کو کس طرح بہتر کیا جاسکتا ہے؟
اس حوالے سے ’ہگزیلائز‘ کمپنی کے سی ای او سعد شاہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی اے بالکل غیر قانونی وی پی اینز کو روک سکتا ہے، کیونکہ دنیا کے باقی ممالک میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ وہاں بھی لوگ کچھ چیزوں کے لیے وی پی اینز کا استعمال کرتے ہیں اور وہ کچھ عرصے بعد بلاک ہوجاتے ہیں۔
مزید کہا کہ وی پی اینز کو بلاک کرنا کوئی مستقل حل نہیں ہے، کیونکہ اگر یہ بند ہوں گے تو اس کے متبادل کچھ نہ کچھ آجائے گا اور پی ٹی اے بلاک کرتا رہے گا۔
’مگر جو وی پی این کا استعمال کر رہا ہے اسے انٹرنیٹ کی سست رفتاری کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے، کیونکہ کونسا وی پی این ہے، کس کوالٹی کا وی پی این ہے، تو یہ تمام چیزیں بھی انحصار کر رہی ہوتی ہیں‘۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اگر چیزوں کو باقائدہ ایک طریقے سے لے کر چلیں تو انڈسٹری کے لیے کافی بہتر ہوگا۔ پاکستان کی بڑی سافٹ وئیر آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر پالیسی بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ انڈسٹری بھی متاثر نہ ہو اور حکومت بھی جو کر رہی ہے بے شک کرتی رہے۔
ڈیجیٹل رائٹس کی تنظیم بائٹس فار آل کے پروگرام مینیجر ہارون بلوچ نے اس حوالے سے بتایا کہ جو بڑے پیمانے پر انڈسٹریز وی پی اینز کا استعمال کر رہی ہوتی ہیں، جیسے سافٹ وئیر ہاوسز وغیرہ، تو اس صورتحال میں انہیں پی ٹی اے سے این او سی لینا پڑتا ہے۔
’یہ بات سمجھ آتی ہے کہ پی ٹی اے رجسٹر کرتا ہے، خیر رجسٹریشن نہیں بلکہ وہ بس این او سی ہوتا ہے۔ باقی وی پی اینز کی رجسٹریشن کی بات ہے تو کونسی ایسی اتھارٹی ہے جو وی پی اینز کی رجسٹریشن کرتی ہے، بلکہ دنیا میں ایسی کوئی اتھارٹی ہے ہی نہیں جو وی پی اینز کو رجسٹر کرے‘۔
یہ بھی پڑھیں: انٹرنیٹ فائر وال لگنے سے سوشل میڈیا کس طرح متاثر ہوگا؟
وی پی اینز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وی پی این دراصل پرائیویٹ ٹیکنالوجی ہے، اس لیے جو خریدنا چاہتا ہے وہ لائسنس لے لیتا ہے، اور وہ لائسنس پی ٹی اے نہیں دیتا۔ یہ تو جس کمپنی کا وی پی این ہوتا ہے، جیسے پرٹون، ایکسپریس یا کوئی بھی دوسرا وی پی این، یہ لائسنس سافٹ وئیر کمپنیوں کا ہوتا ہے اور وہی لائسنس دیتی ہیں۔
’کیونکہ ایسا ممکن تو نہیں ہے کہ سافٹ وئیر کوئی اور بنائے اور اس کا لائسنس پی ٹی اے رجسٹر کرے‘۔
ایک مزید سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی اے وائٹ اور بلیک لسٹنگ کے عمل کو رجسٹریشن کہہ رہے ہیں کہ جیسے وہ چاہ رہے ہیں کہ پاکستانی انٹرنیٹ اسپیسز میں وہی وی پی این استعمال ہوں جو وائٹ لسٹ میں ہیں، اور جو وائٹ لسٹنگ کے اندر وی پی اینز نہیں آرہے تو اس کا مطلب وہ پی ٹی اے کی جانب سے بلاک ہوچکے ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو فائر وال انسٹال ہو رہی ہے وہ دراصل فائر وال نہیں بلکہ فلٹریشن سسٹم ہے جس کے ذریعے گورنمنٹ کے ناپسندیدہ وی پی اینز کو بلاک کیا جائے گا۔