میں انڈین آئیڈل اور اس قبیل کے دیگر موسیقی کے مقابلے شوق سے دیکھتا ہوں، خاص طور پر اگرطویل سیزن یا فلمیں دیکھنے کا وقت نہ ہو تو ایسے شوز تفریح کا بہترین ذریعہ ہیں۔ان پروگراموں میں ہر شو کا الگ عنوان ہوتا ہے جو موسیقی سے جڑی کسی شخصیت یا موضوع سے متعلق ہوتا ہے۔ یہ بچے ہر آہنگ اور ہر رنگ کے گیت گاتے ہیں اور سروں کی سرخوشی میں نہاتے ہیں۔یہ بچے اپنے عظیم رفتگاں کو اور موجودگاں کو جو احترام دیتے ہیں وہ قابل دید اور بڑوں کی بچوں کے ساتھ شفقت قابلِ رشک ہے۔ وہ اس کشادہ ظرفی سے حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ بچے کا حوصلہ کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔ بیشتر بچے شو کے دو تین ماہ کے دورانیے میں اپنے فن میں بے پناہ بہتری اور شخصیت میں بے حد نکھار لے آتے ہیں۔ یہ اس میڈیا اور ان گلوکاروں اور فنکاروں کا بڑا کارنامہ ہے۔
ماہرین لسانیات کے بقول کسی زبان کے مستقبل کا اندازہ بچوں کی اس زبان میں دلچسپی سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ بات موسیقی پر بھی صادق آتی ہے۔ ہماری نئی نسل کلاسیکی موسیقی سے تو دور تھی ہی، اب تو سیمی کلاسیکی موسیقی اور اچھے گیتوں اور دھنوں سے بھی دور ہوتی جا رہی ہے۔ غزل گائیکی بھی اب صرف ان لوگوں میں مقبول رہ گئی ہے جو چار پانچ دہائیاں پہلے پیدا ہوئے۔ خرابی تو یہ ہے کہ جدت کے نام پر ہونے والے یکسانیت بھرے تماشے میں سے اکا دکا گیت نکلتا اور وائرل ہوتا ہے، جس کی عمر خبرکی طرح مختصر ہوتی ہے۔ ایسا گاناچند دن یا چند ہفتے سوشل میڈیا پر لاکھوں ویوز بٹور کر پھس ہو جاتا ہے اور کوئی نیا تماشا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔
ہمارے پڑوس میں بھی یہ ہنگامہ بہت ہے لیکن ان کے اندر احساس ذمہ داری اور ذمہ داروں میں اپنی ثقافت کے ساتھ جڑت بھی موجود ہے۔ ان کی نئی نسل اپنے عظیم موسیقاروں اور گلوکاروں کے کام سے آگاہ ہے اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ لوگ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کام کر رہے ہیں۔ موسیقی کے مقابلوں میں نوجوانوں بلکہ کچھ معصوم بچوں کو ایک بار سن لیجے، لطف آجائے گا۔ ایک اور بات ہمارے لیے بہ یک وقت خوش آئند بھی ہے اور دکھ کی حامل بھی کہ ان شوز میں بڑے اور بچے ہندی/ اردو بولنے سے ہچکچاتے نہیں، بھلے غلط بھی بولیں لیکن بول رہے ہیں۔ بلکہ کچھ میزبان تو کافی حد تک انگریزی کی آمیزش کے بغیر ہندی بول رہے ہیں جبکہ ہمارے ٹی وی شوز دیکھ لیں ،ایک دو کو چھوڑ کر سب اینکرز ایک جملہ انگریزی کے تڑکے کے بغیر نہیں بول سکتے۔
ان پروگراموں کے ذریعے نام پیدا کرنے والے بیشتر نوجوان گلوکار کسی باقاعدہ موسیقار گھرانے سے تعلق نہیں رکھتے۔ گھرانوں کی بات ہی کیا، یہاں تومہدی حسن، نورجہاں، نصرت فتح علی خاں اور غلام علی جیسے فنکاروں کو بھی ان کے خاندان سے باہر گانے والا کوئی بڑا نام نہیں، اور جو نام بنا سکتے ہیں انھیں میڈیا پر اس طرح مواقع ہی نہیں مل رہے جیسے پڑوس کے بچوں کو مل رہے ہیں۔ایک وقت تھا کہ دونوں ملکوں کے بچے موسیقی کے ان مقابلوں میں ایک ساتھ شریک ہوتے تھے، یوں پاکستانی بچوں کو بھی اپنے فن کے اظہار کا اور پڑوسیوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا تھا، لیکن تازہ ہوا کے یہ جھونکے ان لوگوں کو کیسے پسند آتے جن کی روزی روٹی کا مدار ہی گھٹن پر ہے۔
معاشرتی دبائو بھی موسیقی کے زوال کا بڑا محرک ہے۔ کوئی بھی فن معاشرتی گھٹن میں نہیں پنپ سکتا۔ موسیقی تو انسانی مسرت کا اہم اور نازک محرک ہے اور ہمارے ہاں مسرت کا حصول ویسے ہی برا سمجھا جانے لگا ہے۔ تین چار دہائیوں سے پھیلتے ہوئے انتشار نے ثقافتی سرگرمیوں کو بہت نقصان پہنچایا، اور موسیقی کا تو جنازہ نکال دیا ہے۔
ہمارے پڑوس میں چھوٹے چھوٹے بچے آج بھی محمد رفیع، لتا، آشا، کشور اور دیگر عظٰیم گلوکاروں کے گانے ذوق و شوق سے گاتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے بیٹھے منصف کلاسیکل موسیقی کی شدھ بدھ رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے فن کی عظمت سے آگاہ اور نئی نسل سے ڈرنے کی بجائے اس سے محبت کرنے والے ہیں، سو وہ نئی نسل اور عظیم رفتگاں کے درمیان ایک رابطہ پل کا کردار ادا کررہے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ پل ٹوٹ چکا ہے۔ جو چند گلوکار موجود ہیں وہ اپنے خول میں قید ہیں اور میڈیا کی ترجیحات اور اہداف کچھ اور ہیں، سو ہمارےبچے صرف شور سنتے اور شور مچاتے ہیں۔