مجھے کبھی اس بات کا شک نہیں ہوا کہ ماہل بلوچ خودکش بمبار ہے، والد

بدھ 28 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

25 اور 26 اگست کو مسلح افراد کی جانب سے بلوچستان کے 10 اضلاع میں مختلف نوعیت کے حملے کیے گئے جن میں 30 عام شہریوں سمیت 14 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوگئے۔ ان حملوں کی جوابی کارروائی کے دوران 21 حملہ آور بھی مارے گئے۔

اسی نوعیت کا ایک حملہ 26 اگست کی صبح بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں بھی کیا گیا جب حملہ آوروں نے بارود سے بھری گاڑی سیکیورٹی فورسز کے کیمپ کے دروازے سے ٹکرا دی جس سے زور دار دھماکا ہوا، ان واقعات کی ذمہ داری بلوچ شدت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی۔

یہ بھی پڑھیں بلوچستان: مستونگ میں دہشتگردوں کی لیویز تھانے پر قبضے کی کوشش ناکام

اپنے ایک جاری کردہ بیان میں بلوچ لبریشن آرمی نے بتایا کہ تمام تر کارروائیاں آپریشن ھیروف کا حصہ تھیں، بیان میں مزید بتایا گیا کہ لسبیلہ میں سیکیورٹی فورسز کے کیمپ پر خود کش حملہ خاتون خود کش حملہ آور ماہل بلوچ نے کیا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماہل بلوچ نامی خاتون کون تھی؟ وی نیوز کی تحقیقات کے مطابق ماہل بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ضلع گوادر کے علاقے سربندر سے تھا۔ 23 سال کی ماہل بلوچ نے اپنی ابتدائی تعلیم گوادر سے حاصل کی اور گوادر ڈگری کالج سے انٹر کیا۔ جس کے بعد قانون کی تعلیم کے حصول کے لیے تربت یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔

’سیکیورٹی اداروں نے بیٹی کی جانب سے خودکش حملہ کرنے کا بتایا تو یقین ہی نہیں آیا‘

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے خود کش بمبار ماہل بلوچ کے والد کہدہ حمید بلوچ نے بتایا کہ واقعے کے بعد میرے بڑے بھائی نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہاکہ سیکیورٹی اداروں کے اعلیٰ افسر آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔

کہدہ حمید بلوچ کے مطابق سیکیورٹی اداروں کے اعلیٰ افسر نے رابطہ ہونے پر تفصیلات بتانے کے بعد سوال کیاکہ ماہل بلوچ آپ کی کیا لگتی ہے، جس پر میں نے جواب دیا کہ وہ میری بیٹی ہے۔

انہوں نے کہاکہ سیکیورٹی ادارے کے افسر نے بتایا کہ آپ کی بیٹی نے لسبیلہ میں سیکیورٹی فورسز کے کیمپ پر خود کش حملہ کیا ہے جس پر مجھے ان کی بات پر یقین ہی نہ ہوا، لیکن بعد ازاں سوشل میڈیا پر بھی یہ خبر پھیل گئی۔

’بیٹی سے آخری بار 23 اگست کو بات ہوئی‘

حمید بلوچ نے بتایا کہ ماہل چھٹیوں پر گھر آئی تھی اور کچھ دن قیام کرنے کے بعد 23 اگست کو گوادر سے تربت کی جانب لوکل ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر کیا، اور پھر اسی رات کو میسج کرکے تربت پہنچنے کا بتایا۔

’بیٹی ماہل نے بتایا کہ اس کا موبائل خراب ہے، تو رابطہ ممکن نہیں ہوسکے گا، اس کے بعد سے ہمارا ماہل بلوچ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا‘۔

حمید بلوچ نے بتایا کہ ہمیں کبھی اس بات کا شک بھی نہیں ہوا کہ ماہل ایک خودکش بمبار ہے، وہ تعلیمی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی اور یونیورسٹی میں اپنی مکمل کلاسز لیتی رہی۔ مکران ڈویژن میں موبائل فون سگنل نہ ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات اس سے رابطہ نہیں ہو پاتا تھا لیکن اس کی کوئی شکایت نہیں آتی تھی۔ رواں برس گرمی کی چھٹیوں میں ماہل ایک سے ڈیڑھ مہینے کے لیے وکالت کی پریکٹس کی غرض سے کوئٹہ گئی تھی۔

’ہمارا تعلق سیاسی گھرانے سے ہے، اور بیٹا بھی وکالت کے شعبے سے منسلک ہے‘

ماہل والد نے مزید کہاکہ ہمارا تعلق ایک سیاسی گھرانے سے ہے میرے والد نیشنل پارٹی کے کارکن تھے جبکہ میں اور میرا بھائی بھی نیشنل پارٹی سے منسلک ہیں۔ ’میرا بھائی نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے ڈسٹرکٹ چئیرمن رہ چکا، جبکہ میرا بیٹا بھی وکالت کے شعبے سے منسلک ہے۔

’سیکیورٹی فورسز کا تربت یونیورسٹی پر چھاپہ، ماہل بلوچ کے زیراستعمال‘

سیکیورٹی فورسز کی جانب سے معاملے کی مزید تحقیقات کے لیے گزشتہ روز تربت یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل میں چھاپہ مارا گیا جہاں ماہل بلوچ کے زیر استعمال اشیا تحویل میں لینے کے ساتھ ساتھ دیگر طلبا سے پوچھ تاچھ بھی کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں بلوچستان، سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں 21 دہشتگرد ہلاک، 14 جوان شہید

ماہل بلوچ کالعدم تنظیم بی ایل اے کی جانب سے بطور خودکش بمبار استعمال ہونے والی تیسری خاتون ہیں، اس سے قبل تربت میں جون 2023 میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر ایک خودکش حملہ آور کی شناخت سمیعہ قلندرانی بلوچ کے نام سے ہوئی تھی، جبکہ اپریل 2022 میں کراچی یونیورسٹی میں شاری بلوچ نامی خاتون نے کنفیوشس سینٹر کے باہر خودکش حملہ کیا تھا جس میں 3 چینی اساتذہ سمیت 4 افراد مارے گئے تھے۔

ان 3 خواتین خود کش بمباروں میں ایک بات یکساں تھی کہ تینوں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp