زیادہ عرصے کی بات نہیں۔ 80 اور 90 کی دہائیوں میںلوگ پنجاب سے کوئٹہ ہزاروں کی تعداد میں کاروبار اور سیر کرنے کی غرض سے جایا کرتے تھے۔ بعض لوگوں کا ایران آنا جانا معمول تھا چاہے غرض کاروبار کی ہو یا زیارتوں کی۔
جب بھی کوئٹہ جانا ہوا، وہاں کے لوگ شکوہ کرتے پائے جاتے تھے کہ بلوچستان کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ انہیں وہ حقوق نہیں دیے جا رہے ہیں جو پنجاب یا دیگر صوبوں کو مل رہے ہیں۔ زیادہ تر لوگ ان تمام محرومیوں کا ذمہ دار پنجاب کو ٹھیراتے تھے۔ ان کے خیال میں ‘پنجابی اسٹیبلشمنٹ’ ان کے حقوق سلب کررہی ہے۔ اس وقت شاید لوگوں کو اندازہ نہیں تھا کہ بلوچستان کے لوگ محرومیوں کے شکوے کیوں کرتے ہیں۔
آہستہ آہستہ حالات مزید بگڑتے گئے۔ پنجاب میں یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ بلوچستان کے سردار خود وفاق سے مالی فوائد لیتے ہیں اور ٹھاٹھ باٹھ سے زندگی گزارتے ہیں مگر انہوں نے اپنے عوام کوحقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ سیاسی ادوار تک حالات قدرے بہتر رہے۔ 1999 میں جنرل مشرف کا دور شروع ہوا تو بلوچستان کے حالات خراب سے خراب تر ہونا شروع ہو گئے۔ مشرف کا فوکس سیاسی حل کی بجائے طاقت کے استعمال پر رہا۔
جب ملک کے کسی حصے میں کشیدگی شروع ہوتی ہے تو بیرونی طاقتیں بھی اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اسی طرح بھارت نے بھی بلوچستان میں بگڑتے حالات میں اپنے مداخلت بڑھا دی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی بھرپور حمایت شروع کردی۔
جنرل مشرف کے دور کو اس بگاڑ کا ذمہ دار اس لیے ٹھیرایا جاتا ہے کہ انہوں نے معاملات بات چیت کی بجائے طاقت کے استعمال سے حل کرنے کی کوشش کی جس کے نتائج اچھے نہ نکلے۔ حال ہی میں خواجہ آصف نے بیان دیا کہ اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچستان کے حالات زیادہ بگڑے۔
چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہیٰ جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ بلوچستان اور لال مسجد کے معاملے پر انہوں نے پرویز مشرف کو مشورہ دیا کہ ان سنگین معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔ چوہدری شجاعت نے اپنی کتاب ‘سچ تو یہ ہے’ میں لکھا کہ مشرف دور میں ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس میجر جنرل ندیم اعجاز کا لہجہ اکبر بگٹی کے بارے میں بڑا سخت ہوتا تھا۔
ایک دن چوہدری صاحب اور مشاہد حسین دونوں ندیم اعجاز کے گھر گئے اور انہیں کہا کہ اکبر بگٹی ہمیشہ وفاق کے حامی رہے ہیں لہٰذا انہیں مارنا نہیں گرفتار کر لینا۔ اگلے ہی روز اکبر بگٹی کو شہید کر دیا گیا۔ چوہدری برادران کے مطابق انہوں نے جنرل مشرف کو سمجھایا کہ بلوچستان پر قائم سیاسی کمیٹی کے سربراہ سید مشاہد حسین کو اکبر بگٹی سے مذاکرات کے لیے بلوچستان بھیجیں گے اور طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ مگر جنرل مشرف نے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ اسی لیے زیادہ تر لوگ جنرل مشرف کو آج بلوچستان کے بگڑتے حالات کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں۔
نوازشریف 2013 کے انتخابات میں بلوچستان میں اکثریت ہونے کے باوجود چاہتے تھے نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر مالک بلوچ کو وزیراعلیٰ بنایا جائے۔ نوازشریف بلوچستان کے پختون قوم پرستوں اور بلوچ قوم پرستوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے اسی لیے انہوں نے سردار ثناء اللہ زہری سے درخواست کی کہ وہ ذاتی مفاد اور جماعتی مفاد کو چھوڑ کر قومی مفاد میں ڈاکٹر مالک بلوچ کو بطور وزیراعلیٰ قبول کر لیں۔ اس کے علاوہ انہیں وزیراعلیٰ بنانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ بلوچستان کے ناراض نوجوانوں میں وفاق اور پنجاب کے خلاف بے چینی میں کمی واقع ہوگی۔
پچھلے کچھ عرصے سے بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق حکومت سازی کی جارہی ہے اور طاقت کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ایک ایسا بیانیہ بھی دیا جارہا کہ وہاں مسنگ پرسنز کے حق میں مظاہرے کرنے والے بھی شدت پسندوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ مگر بعض سیاستدانوں کا خیال ہے کہ وفاق کے حامی بلوچ اور پختون سیاستدانوں ایک موقع دینا چاہیے کہ وہ بلوچستان کے مسئلے کے حل میں کردار ادا کریں۔
محمود اچکزئی کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے کہ سیاستدانوں کو آگے رکھ کر بلوچستان کے مسئلہ کو سیاسی طور پر حل کرنے کی طرف بڑھنے کے علاوہ کوئی دوسرا حل موجود نہیں۔ محمود اچکزئی کہتے ہیں کہ بلوچستان میں بیرونی طاقتوں کی مداخلت بھی بڑھتی جا رہی ہے اس لیے صرف طاقت کے استعمال سے نہ تو پہلے کوئی مسائل حل ہوئے ہیں اور نہ مستقبل میں حل ہوں گے۔