بلوچستان محروم نہیں رہا

ہفتہ 31 اگست 2024
author image

علی رضا شاف

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

زمانہ بدل گیا ہے، اب براہِ است جنگ نہیں لڑی جاسکتی، پاکستان جب سے نیوکلیئر پاور بنا ہے دشمن کے لیے ہم ناقابل تسخیر ہوچکے ہیں، پاکستان پر براہِ راست حملہ، دشمن کا خودکش حملہ ثابت ہوگا۔

جنگ جب روایتی نہیں رہی تو پھر اس کے خدوخال بدل گئے ہیں، نئی جنگ کو اب ففتھ جنریشن وار فیئر کہہ لیں، پراکسی کہہ لیں، خانہ جنگی کہہ لیں یا کوئی بھی نام دے لیں۔

ہمارا روایتی دشمن بھارت برسوں سے ایک خواہش رکھتا ہے کہ خطے میں اس کی اجارہ داری قائم ہو، وہ خطے کا چوہدری بن کر رہے ،اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ معاشی طور پر مضبوط ہوجائے اور پاکستان معاشی طور پر جتنا کمزور ہوگا،بھارت کو اتنا ہی مضبوط تصور کیا جائے گا۔

اسی لیے پاکستان کی معاشی تنصیبات کو مسلسل نشانہ بنایا جاتا ہے، پھر چاہے اس کے لیے ہتھیار اٹھائے کرائے کے دہشتگردوں کا استعمال کیا جائے یا پھر معاشی تنصیبات کے خلاف جھنڈا اٹھائے احتجاجی تحریکوں کا۔

بلوچستان کا جو حقیقی مسئلہ تھا اس کے تمام فطری عوامل کو جانتے ہوئے ریاست نے کئی برس قبل حل بھی کرلیا، حل کیسے کیا یہ آگے جاکر بیان کروں گا،لیکن اس سے قبل موجودہ حالات و واقعا ت کے پیچھے چھپے عوامل کا ذکر کروں گا۔

چونکہ اب دنیا میں جنگ ہی معیشت کی ہے اسی لیے پاکستان ارضی سیاست (جیو پولیٹکس) اور ایک وسیع پیمانے پر گریٹ گیم کا شکار ہے۔ کیونکہ جو قدرتی طور پر معاشی دولت اللہ نے پاکستان کو دی ہے وہ شاید ہی کسی کے پاس ہو۔

 گندھک، کرومائیٹ ، جپسم، باکسائیٹ، ایلومینیم، لیتھیم،سونا، کرومائیٹ،تانبا سمیت قدرتی معدنیات بلوچستان کو سونے کی چڑیا کے نام سے نوازتی ہیں۔ بلوچستان کی اسٹراٹیجک لوکیشن جو پورے برصغیر، چائنا کو ایران، ترکی، عراق ، شام، یورپ اور سینٹرل ایشیا کے بڑے حصے سے بذریعہ روڈ انتہائی آسان راہدی فراہم کرتی ہے۔

نیلا اور گرم سمندر جس کے ذریعے سال بھر تجارت جاری رہ سکتی ہے، سمندر کو پاکستان نے نظر انداز کرکے رکھا لیکن اس سے معاشی لحاظ سے بے حد فائدہ اٹھایا جاسکتا۔

بلوچستان کے اسی پوٹینشل کو استعمال کرتے ہوئے اگر یہاں انفراسٹرکچر بن جاتا ہے تو سوچیں خطے کا چوہدری بننے والوں کے خواب چکنا چور ہوں گے یا نہیں؟ جب ان کے خواب چکنا چور ہوں گے تو پھر کیا وہ اپنی معیشت سے چند فیصد حصہ نکال کر ہمیں معاشی طور پر کمزور کرنے پر نہیں لگائیں گے؟

بلوچستان کی 14ملین آبادی ہے جو کہ پاکستان کی کل آبادی کا 5 فیصد ہے۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے کل رقبے کا 44 فیصد ہے ۔کیا ایسا ممکن ہوسکتا ہےکہ، 5 فیصد آبادی اپنے 95 فیصد سے الگ ہوجائے اور اُس 5فیصد میں بھی ایک نہیں کئی قومیں آباد ہوں؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ جب سی پیک کا اعلان ہوا تھا،آغاز نہیں صرف اعلان ہوا تھا، تب سے لیکر اب تک بلوچستان میں جتنے حالات خراب ہوئے ہیں، جتنی دہشت گردی اور انتشار کا ماحول بنا ہے، یہ بلوچستان کے اُن فطری مسائل کےدوران بھی نہیں بنا تھا جو کہ حل کرلیے گئے ہیں۔ پھر اصل نشانہ کیا ہوا؟

یہ بلوچستان سے اُٹھ کر گوادر جاتے ہیں جس کی اپنی آبادی 50 ہزارکے قریب ہوگی، وہاں جاکر ملین مارچ کرتے ہیں ،بھئی آپ کوئٹہ جائیں، جو صوبائی دارالحکومت ہے، آپ پریس کلب جائیں، آپ اسلام آباد جائیں جووفاق ہے۔گوادر جہاں تعمیراتی کام ہورہا ہے، جہاں غیر ملکی سرمایہ کار ہیں وہاں جاکر حالات خراب کرنے کا مقصد کیا ہوسکتا ہے؟

اس سے کیا ہوگا،بلوچستان محروم رہے گا اور ان محرومیوں کی آڑ میں وہاں کے عام بلوچ کو دہشت گرد اپنے عزائم کے لیے استعمال کریں گے۔ پھر ان کی ذہن سازی کی جاتی ہے، اور پہاڑوں پر لے جاکر بندوق تھما کر اپنے بیرونی مالک سے پیسہ وصول کیا جاتا ہے۔

معاشی تنصیبات پر کام کرنے والے مزدوروں، انجنیئرز کو نشانہ بنانے کا مقصد کیا ہوسکتا ہے؟ تاکہ وہاں کوئی منصوبہ نہ بن سکے، سرمایہ کار غیر محفوظ محسوس کرے اور بھاگے جائے؟ سوچیں یہ کس کے عزائم ہیں؟

اب ذرا ہم اُن فطری مسائل کا ذکر کریں گے جن کا لبادہ اوڑھ کر آج بھی چند جتھے دشمن کی پراکسی لڑتے ہیں، دشمن کے عزائم کو پورا کرتے ہیں ۔

بلوچوں کو پاکستان کے تمام صوبوں میں کوٹہ سسٹم پر تعلیم ملتی ہے، کوٹہ سسٹم پر اسپیشل نوکریاں ملتی ہیں، بلوچ فوج میں جرنیل اور کور کمانڈر ہیں، سینیٹ چیئرمین رہے، ڈپٹی اسپیکر اور  کئی آئینی عہدوں پر رہے، ملک کا چیف جسٹس بلوچستان سے تعلق رکھتا ہے۔

ٹیکنیکل تعلیم کے لیے پنجاب میں 384،سندھ میں 213،خیبرپختونخواہ میں 107 اور بلوچستان میں 321تعلیمی ادارے ہیں ۔یہاں کہیں محرومی نظر نہیں آرہی،بلکہ چھوٹا صوبہ ہونے کے باوجود تعلیمی وسائل زیادہ ہیں۔ یعنی پنجاب میں ساڑھے 3 لاکھ افراد کے لیے ایک ٹیکنیکل تعلیم کا ادارہ اور بلوچستان میں 44افراد کے لیے ایک ادارہ دستیاب ہے۔

8 میں سے 7سروس سرونٹس کا تعلق بلوچستان سے ہی ہے۔ بلوچستان کا گزشتہ بجٹ 750ارب روپے تھا اور بلوچستان کی اپنی آمدنی 181 ارب روپے ہے۔ یعنی صوبہ خسارے میں رہتا ہے، اپنے اخراجات بھی پورے نہیں کرپاتا اسی لیے وفاق کا بجٹ اضافی ہوتاہے۔

بلوچستان میں معدنیات کی مائننگ کے لیے تقریباً 57ہزار ملازمین کام کرتے ہیں جن میں تقریباً 80فیصد مقامی بلوچ ہیں۔یعنی روزگار انہی کو فراہم کیا گیا ہے۔ کسی دوسرے صوبے نے وہاں جاکر حق نہیں مارا۔

معدنیات سے حاصل ہونے والی آمدنی کی مد میں وفاق کو 119 ارب روپے ملتا ہے اور اتنی ہی رقم صوبے کو بھی ملتی ہے، جبکہ معدنیات پر کام کرنے والی کمپنیاں صوبائی حکومت کو علاقے کی فلاح و بہبود کی مد میں 12 ارب  الگ سے رقم دیتی ہیں۔

جن سرداروں یا پھر قوم پرست بلوچ رہنماؤں کی زمینوں سے معدنیات نکلتی ہے وہ 23ارب روپے رائیلٹی کی مد میں الگ سے وصول کرتے ہیں (اب و ہ بلوچ قوم پر پیسہ لگائیں یا نہ لگائیں یہ الگ بات ہے)۔

منافع کی بات کریں گے تو رائیلٹی دینے کے بعد 50فیصد منافع سرمایہ کار کمپنی حاصل کرلیتی ہے، جبکہ وفاق اور بلوچستان حکومت 25,25فیصد منافع وصول کرتے ہیں ۔جس علاقے سے معدنیات نکل رہی ہوتی ہیں ، وہاں کے مقامی افراد کو تعلیم، علاج اور بجلی مفت ملتی ہے۔

یہ وہ اقدامات ہیں جس سے دیرینہ مسائل حل کرلیے گئے۔ اس کو پڑھنے کے بعد کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان واقعی محروم ہے؟ کیا ان کا حق مارا جارہا ہے؟ بلکہ ان کی محرومی کے نعروں کے چکر میں تو اس بار وزیر اعظم نے این ایف سی ایوارڈ بھی دوگنا کردیا ہے۔

جب مسائل حل ہوگئے تو پھر احتجاج ، ہتھیار اٹھانا  فطری نہیں ہے۔ پھر اس کے پیچھے وہی طاقتیں ہیں جو نہیں چاہتیں کہ پاکستان معاشی طاقت بنے۔ نیوکلئیر طاقت بننے کے بعد پاکستان کو ایک اور معرکہ سر کرنا ہے اور وہ معاشی طاقت بننے کی صورت میں ہی ممکن ہوگا۔ اسی معرکے سے پاکستان کو روکنے کے لیے پروفیشنل نام نہاد باغی پیدا کیے جارہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp