پاکستانی معیشت کو گزشتہ چند سالوں سے سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ آمدن سے زائد اخراجات اور پھر قرضوں کی واپسی، قرضوں پر سود کی ادائیگی، حکومتی اخراجات اور پھر سب سے بڑھ کر ریٹائرڈ ملازمین کو ماہانہ پینشن کی ادائیگی جیسے اخراجات معیشت کو سنبھلنے ہی نہیں دیتے۔ رواں سال کے بجٹ میں سول اور ملٹری پینشن کی ادائیگی کے لیے 882 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
پینشن کے اس بوجھ کو کم کرنے کے لیے حکومت نے نئے سرکاری ملازمین اور مسلح افواج کے لیے نئی پینشن اسکیم متعارف کرا دی ہے جسے امدادی فنڈ اسکیم کا نام دیا گیا ہے۔ اسکیم کے تحت بھرتی کیے گئے مسلح افواج اور سول ملازمین و افسران اپنی بنیادی تنخواہ کا 10 فیصد حصہ اس امدادی فنڈ سکیم میں دیں گے جبکہ 20 فیصد ادائیگی حکومت کی جانب سے کی جائے گی۔
اس اسکیم کی بابت وی نیوز نے معاشی تجزیہ کار شہباز رانا سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس اسکیم کے تحت حکومت کو کتنا فائدہ ہو گا اور معیشت سے کتنا بوجھ کم ہو گا؟ اس پر شہباز رانا نے کہا کہ اس اسکیم کا اطلاق چونکہ ان ملازمین و افسران پر ہوگا جو کہ یکم جولائی 2024 کے بعد بھرتی کیے گئے ہیں، اس لیے فوری طور پر حکومت کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا، البتہ مستقبل میں ان ملازمین کی ریٹائرمنٹ کے بعد جب پینشن کی ادائیگی کی جائے گی تو اس وقت حکومت کو بچت ہو گی۔
شہباز رانا کا کہنا تھا کہ رواں سال بھی بجٹ میں پینشن میں 15 فیصد اضافے سے خزانے پر بوجھ بڑھا ہے، گزشتہ سال کی نسبت رواں سال پینشن کے لیے 122 ارب روپے اضافی مختص کیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ نئی پینشن اسکیم کا نفاذ ان سرکاری ملازمین پر تو کر دیا گیا ہے جو یکم جولائی 2024 کے بعد بھرتی کیے گئے ہیں تاہم مسلح افواج میں اس اسکیم کا نفاذ ایسے افسران پر ہوگا جنھیں یکم جولائی 2025 کے بعد بھرتی کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ اس اسکیم کے لیے حکومت کی جانب سے رواں سال کے بجٹ میں 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے رواں سال کے بجٹ میں پینشن کی ادائیگیوں کے لیے 10 کھرب 14 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے، 662 ارب روپے مسلح افواج کے ریٹائرڈ ملازمین و افسران کے لیے جبکہ 220 ارب روپے سرکاری ملازمین و افسران کی پینشن ادائیگی کے لیے رکھے گئے ہیں۔