حکومت نے اختر مینگل سے استعفیٰ واپس لینے کی درخواست کردی، جواب کیا ملا؟

بدھ 4 ستمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل کو منانے کے لیے حکومتی کوششوں میں تیزی آگئی اور وزیراعظم پاکستان مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ کی قیادت میں حکومتی وفد مذاکرات کے لیے پارلیمنٹ لاجز پہنچے اور حکومتی وفد نے اختر مینگل سے درخواست کی کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔

پارلیمنٹ لاجز میں ہونے والے مذاکرات کے بعد حکومتی وفد نے میڈیا سے گفتگو کی اور بتایا کہ وفد نے اختر مینگل سے درخواست کی ہے کہ وہ استعفے سے متعلق اپنا فیصلہ واپس لیں۔

رانا ثناللہ نے کہا کہ اختر مینگل نے ہمیشہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے بلوچستان کے حقوق کی بات کی، صوبے کی محرومی کی بات اور بلوچستان کے لوگوں کا مقدمہ دلیری سے لڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اختر مینگل سے کہا کہ آپ اپنی اس جدوجہد کو آئین کے دائرے میں جاری رکھیں اور اس حوالے سے ہم سب ان کے قدردان ہیں۔

رانا ثناللہ نے کہا کہ حکومتی وفد نے کل کے استعفے والی درخواست پر ریویو پٹیشن دائر کردی ہے جسے اختر مینگل نے وصول تو کرلیا ہے مگر ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پٹیشن پر دلائل دیے جائیں گے اور ہمیں یقین ہے کہ ہماری یہ درخواست مان لی جائے گی۔

اس سے قبل رانا ثناللہ نے پارلیمنٹ لاجز پہنچنے پر کہا تھا کہ سردار اختر مینگل بہت سینیئر سیاستدان ہیں اور ان کی بلوچستان میں ایک خاص اہمیت ہے، اس کے علاوہ وہ ہمارے بھائی ہیں اور انہوں نے کل پارلیمںٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دیکر نہ صرف اپنے حلقے کے لوگوں کو بلکہ ہم سب کو ایک سرپرائز دیا اور آج اسی معاملے پر بات کرنے کے لیے ان کے پاس تشریف لائے ہیں۔

مزید پڑھیں: سینیئر سیاستدان اختر مینگل قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی

رانا ثناللہ نے بتایا تھا کہ اختر مینگل نے استعفیٰ دینے سے پہلے حکومت کے سامنے اپنے تحفظات نہیں رکھے اسی لیے ہم ان کے پاس آئے ہیں اور مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش اور کوشش ہے کہ اختر مینگل اپنے فیصلے کو واپس لیں اور ایک بار پھر پارلیمنٹ میں بلوچستان کے لیے آواز بلند کریں۔

حکومتی وفد میں رانا ثناللہ، طارق فضل چوہدری، اعجاز جاکھرانی، عثمان بادینی، خالد مگسی اور محمد وسیم شامل تھے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سردار اختر مینگل نے محمود خان اچکزئی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے (صوبے کے) لوگوں کے لیے کچھ نہیں کرسکا اور ایسی سیاست کرنے سے تو بہتر ہوگا کہ میں پکوڑوں کی دکان لگا لوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں صرف نام کی حکومت رہ گئی ہے اور جب بھی بلوچستان کے مسئلے کی بات کرو تو بلیک آؤٹ کردیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ یہ اسمبلی ہماری آواز کو نہیں سنتی تو اس اسمبلی میں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

مزید پڑھیں: سردار اختر مینگل ماضی میں کب کب ایوان سے مستعفی ہوئے؟

اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ان کے استعفے سے 65 ہزار ووٹرز ناراض ہوں گے لیکن ان سے معافی مانگتا ہوں۔ پارلیمنٹیرین نے خود کہا کہ بلوچستان ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے، میں کہتا ہوں بلوچستان آپ کے ہاتھوں سے نکل نہیں رہا بلکہ نکل چکا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp